کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 42
ان الخمس.....) ترجمہ:عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال خمس میں نہ تو سب رشتہ داروں کوشامل کرتے اور نہ ہی صرف قریبی رشتہ داروں کو خاص کرتے مگر جو کوئی ضرورت مند ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسے دیتے جو حاجت مند ہوتا یا اپنی احتیاج کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں شکایت کرتا۔‘‘ اور ابوداؤد میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ : ’’فے کے اموال میں سے آپ شادی شدہ کو دو حصے عطا فرماتے اور غیر شادی شدہ کو ایک۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (راوی) کودوحصے دئیے کیونکہ میں شادی شدہ تھا اور عمار بن یاسر کو ایک ہی حصہ دیا‘‘[1] (ابو داؤد ۔کتاب الخراج والفئی والامارۃ ۔باب فی قسم الفئی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی پالیسی پر کاربند رہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سلسلہ میں مختلف رائے رکھتے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کو اس کی اسلامی خدمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
[1] طبقاتی تقسیم اور اس کے اثرات کو روکنے کے لیے آپ نے دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ معاشرہ کا کوئی فرد اس کی عام معاشی سطح سے بالاتر ہونے اور اپنی دولت کا اظہار و نمائش کرنے کی کوشش نہ کرے۔ چنانچہ ابو داؤد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ جارہے تھے آپ نے ایک گنبد دیکھا جو دوسری عمارتوں سے سر نکال رہا تھا۔ آپ نے پوچھا۔ یہ کس کا ہے؟صحابہ نے ایک انصاری کا نام لیا آپ چپ ہوگئے مگر یہ بات دل میں رکھی۔ اس گنبد کے مالک نے جب آپ کے سامنے اسلام کیا تو آپ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ آپ نے کئی مرتبہ اس طرح کیا یہاں تک کہ اس نے آپ کے چہرۂ مبارک سے غصہ کے آثار دیکھے۔تو صحابہ سے اس بات کا ذکر کیا اور وجہ ناراضگی دریافت کی ۔ صحابہ نے فرمایا جب رسول اللہﷺ نے تیرے بلند وبالا گنبد کو دیکھا تویہی بات آپ کو ناگوار گزری تھی۔ چنانچہ وہ انصاری اپنے گنبد کی طرف گیا اور اسے گرا کر زمین بوس کر دیا۔ اس کے بعد جب آپ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ گنبد نظر نہیں آیا تو آپ نے پوچھا وہ گنبد کہاں گیا؟ صحابہ نے تمام ماجرا کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا’’ خبردار! ہر عمارت قیامت کے دن اس کے مالک کے لیے عذاب کا سبب ہے۔ مگر ایسی عمارت جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔‘‘( ابوداؤد، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الرقاق۔ دوسری فصل)