کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 22
ان آیات سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سامانِ زیست کی افراط جو فاضلہ دولت ہی کا دوسرانام ہے ۔کوئی پسندیدہ نہیں ہے ۔لہٰذا یہ فاضلہ دولت اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کیونکر پسندیدہ ہوسکتی ہے ۔
۵۔ضرورت سے زائد مال:
انفاق فی سبیل اللہ کے بکثرت او رتاکیدی احکام کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ اپنے مال میںسے کیا کچھ خرچ کریں تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یوں دیاکہ :
﴿ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ﴾(البقرہ:216)
ترجمہ:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو ۔‘‘
اگرچہ ضرورت سے زائد مال کو فی سبیل اللہ خرچ کردینے کا حکم وجوب کا درجہ نہیں رکھتا تاہم استحباب اور فضیلت اسی میں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو بحرین سے جزیہ لانے کے لئے بھیجا ۔جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ جزیہ کا مال لے کر واپس آئے تو اگلے دن صبح کی نماز میں معمول سے زیادہ لوگ شریک ہوئے اورسلام پھیرتے ہی (حسن طلب کے طورپر ) آپ کے سامنے آئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات سمجھ کرمسکرا دیئے اور فرمایاتم خوش ہوجاؤ او رخوشی کی امید رکھو (یعنی تم کو ضرورروپیہ ملے گا)پھرفرمایا:
«فَوَاللّٰهِ مَاالْفَقْرُ اخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسطتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوْهَا کَمَا تَنَافَسُوْا فَتُلْهِیَکُمْ کَمَا اَلْهَتْهُم» (بخاری۔کتاب الرقاق ۔باب مایحذر…)
ترجمہ:’’خداکی قسم مجھ کو تمہاری محتاجی کا کچھ ڈر نہیں ہے ۔بلکہ مجھ کو تویہ ڈر ہے کہ تم پرسامان زیست کی یوں فراوانی ہوجائے جیسے کہ اگلے لوگوں پرہوئی او رتم بھی اسی طرح دنیا کے پیچھے پڑجاؤ جس طرح وہ پڑگئے اوریہ مال کی کشادگی تمہیں آخرت سے اسی طرح غافل نہ کردے جس طرح ان لوگوں کو کیا تھا۔‘‘
۲۔ پھر ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: