کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 20
آپ نے اپنے ۱۲سالہ دورخلافت میں حق الخدمت کے طورپر بیت المال سے ایک پائی بھی نہ لی ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے وقت ان کا وظیفہ پانچ ہزار درہم سالانہ تھا ۔ اس لحاظ سے آپ نے کم ازکم ساٹھ ہزار درہم کی گرانقدر رقم ایثار کے طورپر مسلمانوں کے لئے چھوڑدی تھی ۔ (طبری صفحہ ۷۳)
اس قدر دادودہش کے باوجود بھی آپ نے تین لاکھ درہم نقد ‘ایک ہزار اونٹ اور بہت سی جائیداد غیر منقولہ بھی چھوڑی ۔
یہ ہیں وہ دلائل جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں ضرورت سے زائد دولت صرف جائز ہی نہیں بلکہ عین خیروبرکت ہے ۔ترکہ کو خو داللہ تعالی نے خیرکہا ہے اور اس زائد دولت سے انسان اگرچاہے تو بہت سے فضائل اعمال بجالاسکتاہے ۔
اکتناز دولت کے عدم جواز کے دلائل
اب اس مسئلہ کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔جو حضرات فاضلہ دولت اپنے پاس رکھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں ۔
۱۔آیۂ اکتناز اور اختلاف صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم:
فاضلہ دولت سے متعلق آیۃ اکتناز کی تشریح میں پہلے لکھا جاچکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک زکوۃ اداکردینے کے بعد فاضلہ دولت پاس رکھنے میں چنداں مضائقہ نہیں ۔لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت کے حکم کو عام قرار دیتے ہیں ۔یعنی ان کے خیال میں زکوۃ اداکرنے کے بعد بھی کسی کے پاس دولت جمع ہوجائے تو اس کا یہی حکم ہے کہ قیامت کے دن اس دولت کو تپاکر اہل دولت کو داغا جائے گا۔ (دیکھیے تفسیر ابن کثیر زیر آیت متعلقہ)
اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ اس مسئلے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی زیادہ سخت تھے ۔چنانچہ احنف بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
’’میں قریش لوگوں کی ایک جماعت میں بیٹھا ہواتھا ۔اتنے میں ایک شخص آیا جس کے بال سخت کپڑے موٹے جھوٹے اور سیدھی سادی شکل تھی ۔اس نے سلام کیا پھرکہنے لگا :’’ان کو خوشخبری سنا ایک پتھر دوزخ کی آنچ میں سینکا جائے گا ۔وہ ان کی چھاتی پررکھ دیا جائے گا اور ان کے مونڈھے کی اوپر والی ہڈی پررکھا جائے گا تو چھاتی کی بھٹنی سے