کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 16
۴۔عورتوں کا مہر:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ﴾ (النساء:20)
ترجمہ:’’اوراگر تم ایک عورت کو چھوڑکر دوسری عورت کرنا چاہو او رپہلی عورت کو ایک خزانہ بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘
اب یہ عورتوں کو خزانہ دینا خواہ مہر کی صورت میں ہویا نفقہ یا ہدیہ کی صورت میں‘ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قنطاراپنے پاس رکھنے کا جوازبھی موجود ہو۔گویا یہ آیت بھی فاضلہ دولت کے جواز کا واضح ثبوت ہے ۔
۵۔دولت مندی بشرطِ تقویٰ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«لَا بَأسَ بِالغِنٰی لِمَنِ اتَّقَی اللّٰهَ عَزَّ وَجَلّ»(احمدبحواله مشکوٰة۔باب استحباب المال فصل ثالث)
ترجمہ:’’جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرے اس کو دولتمندی کا کوئی خطرہ نہیں ۔‘‘
تعامل صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اس سلسلہ میں ہمیں کم ازکم چار ایسے صحابہ کرام نظرآتے ہیں جو دینی لحاظ سے بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود امیرکبیربھی تھے ۔دینی لحاظ سے ان کی جلالت شان اس سے زیادہ کیاہوسکتی ہے کہ یہ سب صحابہ کرام عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔بہ لحاظ دولت ان کی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔
۱۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (م۳۱ھ)
دینی لحاظ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامرتبہ یہ ہے کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوقت وفات اپنے بعد خلافت کے لیے جن چھ اشخاص کونامزد فرمایاان میں سے ایک آپ بھی تھے ۔بعد میں خلیفہ کے انتخاب کا اختیار بھی آپ ہی کے سپرد ہوا اورآپ نے بطورِ خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کومنتخب فرمایا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شوریٰ کے رکن تھے ۔جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لینے کا اراد ہ کیا تھا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مسئلہ میں حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی اتنی شدید مخالفت کی کہ ناک میں دم کردیا تھا اور یہ مخالفت بھی بربنائے استدلال تھی ۔