کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 13
اسلام میں فاضلہ دولت
ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا ایک مسلمان اپنے پاس فاضلہ دولت رکھ سکتاہے یا نہیں؟ باالفاظ دیگر یہ سوال یوں ہوگا کہ آیا اسلام میں دولت مند بننے یا بنے رہنے کا جواز ہے ؟اس سوال کا جواب مندرجہ بالاتمہیدی تصریحات کی روشنی میں نہایت آسانی سے یوں دیا جاسکتاہے کہ جہاں تک جواز کے فتویٰ کا تعلق ہے تو یہ جواز ضرور موجود ہے اگرچہ فضائلِ اعمال کے لحاظ سے یہ کمتر درجہ ہے۔
موجودہ دورمیں اس مسئلہ نے ایک اختلافی اور پیچیدہ سی صورت اختیارکرلی ہے اوراس کی وجوہ دوہیں ۔ایک تو یہ کہ اشتراکیت سے متاثر حضرات فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا جائز ہی نہیں گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے اس موقف کا زورشور سے پرچار کررہے ہیں ۔وہ اس سلسلہ میں حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ کامؤقف پیش کرتے ہیں جو فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا حرام سمجھتے تھے ۔
دوسری وجہ ایسے مسلمانوں کا طرزِ عمل ہے جو فاضلہ دولت کے جواز سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔دولت کی محبت ان کے دلوں میں گِھر چکی ہے ۔انہوں نے فرضی زکوٰۃ کے علاوہ ترغیبی صدقات پر عمل کرنایکسر ترک کردیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ فرضی زکوٰۃ کے علاوہ کچھ دینا جرم سمجھتے ہیں تویہ بھی بے جانہ ہوگابلکہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعدادایسی بھی ہے جو زکوٰۃ تک بھی اداکرنے کی روادار نہیں ۔حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے نوافل کے سلسلہ میں آج کا مسلمان بھی بہت حد تک دلچسپی رکھتاہے ۔ اکثر مسلمان فرض رکعات کے علاوہ سنتیں او رنوافل بھی اداکرتے ہیں ۔کم ازکم رمضان میں نمازتراویح بھی اداکرتے ہیں ۔جمعہ او رعید ین کا فرض نمازوں سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں لیکن صدقات یا انفاق فی سبیل اللہ کامسئلہ کچھ ایسا ہے کہ مسلمان بس فرضی زکوٰۃ پر کچھ اس طرح قناعت کرگیا ہے کہ اس درجہ سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔اسی وجہ سے طبقاتی تقسیم پیداہوجاتی ہے ۔
ہمارے خیال میں دونوں فریق افراط وتفریط کا شکا رہیں تاہم چونکہ دونوں فریق اپنے دلائل