کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 11
«عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ من کان له فضلٌ من ظهرٍفلیُعِدْ به علٰی مَن لَا ظهر له ومن کان له فَضْلٌ مِّنْ زَادٍ فَلْیُعِدْ مَنْ لَا زَاد َلَهُ فَذَکَرَ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ مَاذَکَرَ حَتّٰی رَاَیْنَا اَنَّهُ لَا حَقَّ لاحدٍ مِّنَّا مِنْ فَضْل» (مسلم۔کتاب اللقطة ۔ باب الضیافة)
ترجمہ:حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جس کے پاس فالتو سواری ہے وہ اسے لوٹادے جس کے پاس سواری نہیں ہے او رجس کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے ۔‘‘ راوی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی ایک ایک قسم کاایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ ہم میں سے کسی کا بھی اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے ۔‘‘
گویا شریعت نے انفاق فی سبیل اللہ کا کم سے کم درجہ بتادیا اور وہ ہے فرضی زکوٰۃ کی ادائیگی جو کفراور اسلام کی حدپرواقع ہے اورزیادہ سے زیادہ درجہ بھی بتادیا اوروہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دے ۔ ان دونوں درجوں کے درمیان بہت وسیع میدان ہے جس میں ہر مسلمان اپنی ہمت او ر کوشش کے مطابق خرچ کرکے اسی مناسبت سے تقربِ الہٰی او ربلند درجات حاصل کرسکتاہے ۔
صدقہ کی آخری حد:
پھر جس طرح شریعت نے نماز کے نوافل او رنفلی روزے کی حد مقررکردی ہے اسی طرح صدقہ کی بھی حد مقرر کردی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿خَیْرُ الصَّدَ قَةِ مَاکَانَ عَنْ ظَهْر غِنی﴾(بخاری ۔کتاب الوصایا باب من بعد وصیة)
ترجمہ:’’صدقہ اتنا ہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہو ۔‘‘ گویاایساصدقہ جو ضرورت سے زائد ہونے کے بجائے خود کو بھی ضرورت میں مبتلا کردے یا محتاج[1] بنادے ایسا صدقہ کرنا نیکی کا کام
[1] ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہےکہ انبیاء کے لیے کچھ خاص احکام ہوتےہیں جن کے لیے امت مکلف نہیں ہوتی ۔ حسب حال مثالیں یہ ہیں کہ رسول اللہ پر نماز تہجد فرض تھی امت پر فرض نہیں ہے۔آپ وصلی روزے رکھتے تھے یعنی روزہ کھولے بغیر ہی دن کا روزہ شروع ہوجاتا۔ اس طرح کئی کئی دن متواتر آپ افطار نہ فرماتے لیکن ایسے روزے سے آپ نے امت کو منع فرما دیا۔ انبیاء کا ترکہ بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے جبکہ دوسروں کا تقسیم ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح عام مسلمانوں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اس حد تک ہی صدقہ کر سکتے ہیں کہ بعد میں خود محتاج نہ ہو جائیں۔ لیکن آپ اس حکم سے مستثنی تھے اور قرض اٹھا کر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ امت پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے لیکن آپ کے پاس کبھی اتنا مال جمع نہیں ہوا کہ زکوۃ ادا کرنے کی نوبت آئے۔ آپ صدقہ کے اس کم تر درجہ کو کیونکہ گوارا فرماسکتے تھے؟