کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 10
۶۔ قتل عمد ہو یا خطا ‘اس میں غلام آزادکرنا واجب ہے ۔( النساء :۹۲) یاد رہے ان تمام قسم کے کفاروں اورصدقات کا فائدہ معاشی لحاظ سے کمزور طبقہ کو پہنچتاہے ۔ دوسری قسم کے واجبی صدقات ایسے ہیں جن کے ذریعہ اسلامی تہواروں یا عیدین کے موقعہ پر غریبوں کو عید کی خوشی میں شریک بنایا جاتاہے ۔ عیدالفطر کے موقعہ پر صدقہ فطر یا فطرانہ واجب ہے او رعید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کوہر صاحبِ استطاعت کے لیے ضروری قراردیا گیا ہے ۔قربانی کے گوشت کا زیادہ سے زیادہ تہائی حصہ گھر میں رکھا جاسکتاہے ۔باقی گوشت اقرباء کے لیے اورمسکینوں کے لیے اور کھال بھی صدقہ کے طورپر دینا ضروری ہے ۔ اختیاری صدقات : اختیاری صدقہ کو نفلی صدقہ بھی کہا جاتاہے ۔ایسے صدقات اختیاری صرف اس لحاظ سے ہوتے ہیں کہ ان میں صدقہ کی مقدار یا کوئی خاص وقت متعین نہیں ہوتا۔یعنی کوئی شخص جب چاہے او رجتنا چاہے او رجسے چاہے دے سکتاہے ۔ ایسے صدقات کی ادائیگی کے بھی وہی فوائد ہیں جو نماز کے نوافل کے ہوتے ہیں ۔ یعنی اگر فرائض میں کمی رہ گئی ہو تو ایسے صدقات سے پوری کردی جاتی ہے او ر دوسرے یہ کہ یہی صدقات تقربِ الہٰی کا ذریعہ بنتے ہیں۔لہذاایسے صدقات کی ادائیگی صرف اہل ثروت کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ تنگدست حضرات کو بھی ان کے لیے بہت ترغیب دی گئی ہے ۔لہٰذا تنگدست حضرات کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے ۔ ان کے لیے بھی بخل کے مرض سے نجات اور نفس کا تزکیہ ایسے ہی ضروری ہے جیسے صاحبِ حیثیت لوگوں کے لیے ضروری ہے ۔ ایسے صدقات کا میدان بھی بہت وسیع ہے ۔غریبوں کو قرضِ حسنہ دینا‘ قرضہ معاف کردینا یا کسی قرض تلے دبے ہوئے کا قرض اتار کر اسے اس بوجھ سے نجات دلانا ‘ بیواؤں‘ یتیموں کا خیال رکھنا‘ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں سے غریب محتاج لوگوں کی دست گیری کرنا ‘دینی اداروں سے تعاون اورمساجد کی آبادی وتعمیر میں حصہ لینا ‘ خیراتی اور باہمی تعاون کے اداروں میں شریک ہونا ۔غرضیکہ ان صدقات کا میدان فرضی صدقات کے میدان سے بہت زیادہ وسیع ہے او رایسے صدقات کی حد جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہ ہے ۔ صدقات کا بلند ترین درجہ: ﴿ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ ﴾ (البقرہ:19) ’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ان سے کہہ دیجیے کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہے ۔‘‘ اسی چیز کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی۔