کتاب: اسلام میں بنیادی حقوق - صفحہ 23
جائے۔تعظیم ایسی ہونی چاہیے جس میں مبالغہ ہو نہ تقصیر۔آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عزت افزائی اور تعظیم تقاضا کرتی ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مکمل اطاعت کی جائے جس طرح آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کرتے تھے۔اس اطاعت کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے: "قریش نے جب عروہ بن مسعود ثقفی کو صلح حدیبیہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی بات چیت کرنے بھیجا تو (واپس جا کر) اس نے کہا:میں شاہ ایران،شاہ روم اور شاہ حبشہ کے دربار میں بھی گیا ہوں ،مگر میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔جب وہ انہیں حکم دیتے ہیں تو جلد از جلد بجا لاتے ہیں ۔جب وہ وضو کرتے ہیں تو اُن کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور جب وہ بات کرتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے اُن کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔" صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر والہانہ عقیدت کا اظہار اس لیے کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فطرت میں مکارم اخلاق،نرم مزاجی اور فراخ دلی جیسے اوصاف ودیعت کر رکھے تھے۔اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سخت طبیعت والے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہم نشین نہ بنتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تصدیق کی جائے۔جس بات کا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حکم دیا ہو وہ بجا لایا جائے اور جس امر کی ممانعت یا سرزنش کی ہو،اس سے پرہیز کیا جائے۔اور اس بات پر ایمان ہو کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی راہ ہدایت تمام راہوں سے بہتر ،آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل ہے۔آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شریعت پر کسی بھی قانون کو مقدم نہ کیا جائے،خواہ اس کا ماخذ کچھ بھی ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا