کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 96
اعتبار سے آپس میں اختلاف ہو جایا کرتا تھا۔ ان اسباب کے پیچھے ان کی نیت ہر گز یہ نہیں تھی کہ خلاف کی بیج اُگائیں جس کی نشوونما کی کوشش میں منافقین ہمیشہ لگے رہتے تھے … یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے ہی یہ اختلافات ختم ہو جاتے یا انہیں ایسی کوئی نص مل جائے جو بعض کو معلوم ہو اور کچھ اس سے ناواقف ہوں تب بھی یہ اختلافات دم توڑ دیتے۔ کیونکہ فطرتِ سلیم حق بات جہاں پاتی ہے فوراً اسے قبول کر لیتی ہے۔
اسباب اختلاف کا عہد بہ عہد منتقل ہونا بھی فطری ہے کیونکہ ایسی رکاوٹیں پیدا کرنی مشکل ہیں جن سے وہ ختم ہو سکیں کچھ ایسے معاملات بھی پیش آتے گئے جن کے سبب سے اختلاف کی چنگاری بھڑکتی رہی۔
خلیفۂ ثالث سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بلادِ اسلامیہ میں ایک طوفان برپا ہو گیا جس کے نتیجے میں کچھ ایسے حادثات رونما ہوئے جنہوں نے دائرۂ اختلاف میں نئی نئی چیزیں شامل کر دیں ۔ بسا اوقات ایسا ہواکہ ہر شہر اور ملک کے مسلمان وضع و تلبیس کے خوف سے صرف اسی سنت رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر عمل کرتے جو انہیں پہنچتی۔
کوفہ و بصرہ کے دبستان فقہ میں سیاسی افکار کو کچھ خوش گوار ماحول ملا جس سے کئی ایک فرقے جیسے خوارج، شیعہ ، مرجیہ[1] کو فروغ ملا۔ اور معتزلہ و جہمیہ وغیرہ اہل زیغ و ضلال سامنے آئے۔
جتنے فرقے ہوئے اتنے ہی مناہج فکر و عقل بھی بڑھتے گئے اور ہر فرقہ کے کچھ مخصوص اُصول و ضوابط اور ان کا اپنا نقطۂ نظر بن گیا جس سے وہ نصوص شارع اور مصادر شرعیہ کی تفسیر
[1] مرجیہ … وہ فرقہ ہے جو الارجاء فی الایمان کا قائل ہے۔ارجاء لغت میں تاخیر کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں ایمان سے عمل کو مؤخر کرنا ۔ ارجاء ہے۔مرجیہ کا اعتقاد ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت مضر نہیں ۔ جیسے کفر کے ساتھ طاعت مفید نہیں ۔ ان کا یہ عقیدہ جمہور اہل قبلہ کے خلاف ہے۔ کل پانچ فرقے ان کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔ ان کے معتقدات اور فرقوں کی تفصیل ان کتابوں میں دیکھیں ۔ التبصیر فی الدین : ۹۷۔ اعتقادات الفرق از امام رازی : ۱۰۷۔ المواقف از عقد الدین ایجی : ۴۲۷۔