کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 83
نے کہا: ہاں ! میں نے کہا: میں نے سنا ہے اور میرا خیال ہے کہ تمہیں بھی معلوم ہو گا کہ صلح حدیببیہ کے روز سہیل بن عمرو کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ہوئی تو آپ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا لکھیے: (( ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔)) ان سبھوں نے کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مان لیں تو جنگ ہی نہ کریں ۔ آپ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: علی! اسے مٹا دو… ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا میں تمہاری اس بات سے نکل گیا؟ ان سبھوں نے کہا: ہاں ۔ اب رہا جنگ جمل و صفین کے بارے میں تمہارا یہ کہنا کہ انہوں نے قتال کیا ۔ لیکن قیدی نہ بنائے اور نہ مالِ غنیمت حاصل کیا۔ کیا تم اپنی ماؤں کو قیدی بنا کر دوسری عورتوں کی طرح انہیں بھی اپنے لیے حلال سمجھو گے ؟ اگر ہاں کہو گے تو انکارِ کتاب اللہ کرو گے اور اسلام سے نکل جاؤ گے ۔ اب تم دو گمراہیوں کے درمیان گھر گئے ہو۔ کوئی بھی چیز پیش کر کے میں کہتا ہوں کیا اس سے نکل گیا؟ وہ کہتے : ہاں ! اس طرح ان میں سے دو ہزار ہمارے ساتھ واپس آگئے اور صرف چھ سو باقی رہ گئے۔ [1]
[1] اعلام الموقعین: ۱؍۲۱۴۔ ۲۱۵۔ دوسرے سلسلہ ٔ اسناد میں مختلف الفاظ سے یہ روایت مذکور ہے۔