کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 82
سوال پر کچھ لوگ بول پڑے۔ ان سے ہر گز بات نہ کرو۔قریش جھگڑا لو ہوتے ہیں ۔ خود اللہ نے ان کے بارے میں فرما دیا ہے: ﴿بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْن﴾ (الزخرف: ۵۸) ’’بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ۔‘‘ بعض نے کہا: بات کرلی جائے۔ چنانچہ دو یا تین آدمی میرے پاس آئے اور کہا : چاہیں تو آپ بات کریں یا ہم گفتگو شروع کریں ۔ میں نے کہا: تم لوگ بات کرو۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: تین باتیں ہمیں بُری لگیں ۔ وہ یہ کہ حَکَمْ انہوں نے آدمیوں کو بنایا جب کہ حکم خداوندی ہے: ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ (الانعام، یوسف) ’’حکم تو اللہ ہی کا ہے۔‘‘ میں نے کہاکہ خرگوش[1] کے سلسلے میں چوتھائی درہم کا معاملہ اللہ ہی بندوں کے سپرد کیا اور انہیں حَکَمْ بنا دیا ہے اور زوجین کے بارے میں قرآنِ حکیم میں ہے: ﴿فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا﴾ (النساء: ۳۵) ’’ایک فیصل مرد والوں کی طرف سے اور ایک عورت والوں کی طرف سے بھیجو۔‘‘ زوجین اور بندے کے معاملات میں حَکَمْ بنانا افضل ہے یا اُمت کے معاملات میں جس سے خون ریزی بند ہو کر اختلاف اتحاد اتفاق میں تبدیل ہو جائے؟ انہوں نے کہا: ہاں صحیح ہے! دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے امیر المؤمنین بننے سے توقف کیا اور علیحدہ رہے وہ امیر الکافرین ہیں ( معاذ اللہ ) میں نے کہا: قرآن و سنت سے میں دلیل دوں تو مان لو گے؟ انہوں
[1] اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے: ﴿فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ﴾ (المائدہ: ۹۵)’’تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ جیسا اس نے قتل کیا ویسا ہی جانور دے۔ تم میں سے دو ثقہ آدمی اس کا فیصلہ کریں ۔‘‘ احرام پہنے ہوئے حاجی کے شکار سے متعلق یہ حکم ہے۔