کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 81
خوارج سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مناظرہ: عبداللہ بن مبارک[1] سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا مجھ سے عکرمہ بن عمار نے ان سے سماک حنفی نے بیان کیا کہ ابن عباس کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خارجی جب تک نہ نکلیں ان سے جنگ نہ کرو۔ وہ جلد ہی نکلیں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھیے ، میں ان کے یہاں جا کر ان کی بات سننا اور کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا: مجھے آپ کے لیے ان سے کچھ خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں حسن اخلاق کا مالک تھا اور کبھی میں کسی کو ایذا بھی نہیں دیتا تھا۔ میں نے خوب اچھے یمنیکپڑے پہنے، کنگھا کیا اور خارجیوں کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا یہ لباس کیسا ہے؟ میں نے قرآنِ کریم کی یہ آیت تلاوت کی: ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾ (الاعراف: ۳۲) ’’آپ کہیے کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق۔‘‘ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین یمنی لباس پہنتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے۔ وہ بولے کوئی حرج نہیں … آپ یہاں کیسے آئے؟ میں نے کہا کہ اپنے دوست کے پاس سے آیا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاز زاد بھائی اور ان کے رفیق ہیں اور اصحابِ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وحی کے تم سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ قرآنِ حکیم بھی انہیں میں نازل ہوا ہے۔ ان کی دعوت تمہیں اور تمہارا پیغام انہیں پہنچا دوں گا۔ کیا چیز تمہیں بُری لگی ہے؟ اس
[1] ابو عبدالرحمن ، عبداللہ بن مبارک بن واضح حنظلی تمیمی۔ محدث ۔ حافظ ۔ فقیہ اور مسائل میں حجت تھے۔ علم و عمل اور جہاد و تجارت کے جامع اور زہد و تقویٰ میں شہرۂ آفاق ، ہیت (ـعراق)میں ۱۸۱ ھ میں آپ نے انتقال فرمایا۔ آپ کے حالات ان کتابوں میں پڑھیں :طبقات ابن سعد: ۷؍۳۷۲۔ الشیرازی : ۷۷۔ الجرح والتعدیل: ۲؍ ق ۲؍ ۱۷۹۔ التذکرہ : ۱؍۲۷۴۔ الحلیہ : ۸؍۱۶۲۔ تہذیب التہذیب : ۵؍۳۸۲۔