کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 79
عراق میں جو واقعات و حادثات پیش آئے اور وہاں کے ماحول میں جو تبدیلیاں آئیں ان سے مدینہ منورہ کا ماحول محفوظ رہا اور وہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ اس لیے اکثر علماء مدینہ کا یہ طریقہ تھا کہ ان سے کوئی سوال کیا جاتا جس کا کسی حدیث میں کوئی حل نظر آتا تو جواب دیتے ورنہ معذرت کر دیتے … مسروق سے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے نہیں جانتا۔ ان سے کہا گیا کہ اپنی رائے سے قیاس کر کے بتائیے۔ انہوں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں ۔[1] جس مسئلہ میں کوئی حدیث نہ ہو اس میں رائے اور قیاس سے اہل مدینہ بہت خائف رہا کرتے تھے۔ ابن وہب کہتے ہیں : امام مالک نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّد المرسلین اور امام المسلمین تھے ان سے کوئی سوال ہوتا تو اس کا جواب اسی وقت دیتے جب ان کے پاس وحی آتی۔ رسولِ خدا کا جب یہ طریقہ تھا تو یہ کتنی بڑی جرأت و جسارت ہے کہ رائے قیاس ، تقلید ، عرف ، عادۃ ، سیاست ، ذوق ، کشف ، خواب ، استحسان یا اٹکل سے کوئی جواب دیا جائے۔ اللہ ہی کی مدد اور اسی کا بھروسہ ہے۔[2] دونوں دبستانِ فقہ کے اختلاف اور تنقید و مباحثہ کے باوجود ادب اختلاف اور اس کی حدود ہی میں رہ کر سب نے اپنا کام کیا۔ نہ کسی کی تکفیر و تفسیق ہوئی نہ کسی پر ارتکابِ امر منکر کا الزام ، اور نہ اس سے اظہارِ برأت و بے زاری۔ ابن ابی شبرمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک بار میں اور ابو حنیفہ دونوں جعفر بن محمد بن حنیفہ کے پاس گئے۔ میں ان کا دوست تھا۔ سلام کے بعد جعفر سے میں نے کہا: اللہ آپ کے ذریعہ ہمیں فیض پہنچاتا رہے۔ یہ ایک صاحب عقل و فہم عراقی عالم و فقیہ ہیں ۔ انہوں نے کہا: شاید یہی دین میں فکر و قیاس سے کام لیتے ہیں ؟ کیا یہی نعمان ہیں ؟ ابو حنیفہ نے کہا: ہاں ۔ اللہ آپ کو صالح رکھے۔ جعفر نے کہا: اللہ سے ڈرتے رہیے اور دین میں رائے کا
[1] اعلام الموقعین : ۱؍۲۵۷۔ [2] اعلام الموقعین : ۱؍۲۵۶۔