کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 78
نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے درمیان بھی تین سو سے زیادہ صحابۂ کرام موجود رہ چکے تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت ان میں موجود تھی جنہیں افقہ اصحاب الرسول بکتاب اللّٰہ سمجھا جاتا تھا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی مدت خلافت وہیں گذاری۔ ان کے علاوہ ابوموسیٰ اشعری اور عمار وغیرہم جیسے جلیل القدر صحابی انہیں میں اپنی زندگی گذار چکے تھے۔ ابراہیم نخعی اور اکثر علماء عراق کی رائے تھی کہ احکام شرع معنوی حیثیت سے مصالح اور انسانی مفادات پر مشتمل ہیں ۔ ایسے محکم اُصول اور علتوں پر ان کی تعمیر ہوئی جو ان سارے مصالح پر حاوی ہوں ۔ اور ان سب کا منبع و ماخذ کتاب اللہ و سنن رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ فرعی احکام کی مشروعیت بھی انہیں علل و اسباب کے تحت ہیں اور فقیہ وہی ہے جو ان احکام کی علتیں اور ان کی غرض و غایت سمجھتا ہو تاکہ کسی بھی حکم کو وہ ان کے ساتھ ہی مربوط رکھ سکے۔ علماء عراق کا یہ بھی خیال تھا کہ نصوص شرعیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد موقوف ہو گئے اس لیے کتاب و سنت سے ماخوذ احکام کی علتیں جب تک سامنے نہ ہوں اس وقت تک تشریعی ضروریات کا مقابلہ مشکل اور ناممکن ہے۔ حسن بن عبیدہ نخعی سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے ابراہیم نخعی سے عرض کیا کہ آپ کے جو فتاویٰ ہیں کیا آپ نے انہیں سن رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ۔ میں نے کہا: بغیر سنے ہوئے آپ فتویٰ دیتے ہیں ؟ فرمایا: بغیر سنے ہوئے معاملات کو سنی ہوئی چیزوں پر قیاس کر لیتا ہوں ۔[1] عراق کی فقہی درس گاہ کا یہی نشانِ امتاز تھا کہ اگر حدیث نہ ہو تو رائے اور قیاس سے کام لو۔ سعید بن مسیب اور علماء مدینہ علل و اسباب کو قابل التفات نہیں سمجھتے۔ کتاب و سنت میں حل نہ ملتا تو شدید ضرورت کے وقت اس کی طرف توجہ کرتے اور انہیں ضرورت بھی کیا پڑتی ۔ خود سعید بن مسیب کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر ، عثمان اور علی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے سارے احکام اور فیصلوں کا مجھے علم ہے۔[2]
[1] الفقیہ والمتفقہ: ۱؍۲۰۳۔ [2] طبقات ابن سعد۔