کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 77
کے یہاں بھیجا گیا ہے۔[1] اس سے اگرچہ اہل سنت اور جمہور اُمت نہیں بلکہ عراق کے نفس پرست اور اہل بدعت مراد ہیں لیکن تحریک فقہ میں جو چیزیں دُور رَس اثرات کی حامل ہو سکتی ہیں ۔ ان کا اور فقہاء عراق کے موقف اور ان کے مناہج و استنباط کا اچھی طرح پتہ چل جاتا ہے۔ اہل حجاز سمجھتے ہیں کہ ضبط سنت کا کام انہوں نے ہی کیا۔ اور کوئی سنت ان کی نظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔ مدینہ طیبہ ہی میں وہ دس ہزار صحابۂ کرام زندگی بھر رہے۔ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے بعد چھوڑا تھا۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز سارے اہل عرب کو اور مسلمانانِ عالم کو خطوط لکھ کر سنت و وفقہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ لیکن وہ اہل مدینہ سے مسائل و معاملات کے بارے میں خود استفسار کرتے اور تعلیم سنت کی درخواست کرتے تاکہ دوسروں کو اس سے آگاہ کریں ۔ مدینہ میں صحابہ کرام کی فقہ و آثار اور سنت نبوی کے سب سے بڑے عالم سیّدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب ہیں جن سے احناف،مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ وغیرہم نے استفادہ کیا۔ اکثر تابعی علماء مدینہ کا خیال تھا کہ فقہی ضروریات کی تکمیل کے لیے وہی سنن و آثار کافی ہیں جو ان کے علم میں ہیں ۔ کسی طرح سے بھی رائے کی استعمال کی کوئی ضرورت نہیں اور بعض حضرات رائے کے حق میں تھے۔ جیسے امام مالک کے شیخ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن جن کی اس سلسلے میں اتنی شہرت ہوئی کہ ’’ربیعۃ الرأی‘‘ ان کا لقب ہی ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود ان علماء کی کثرت تھی جو سنت و اثر ہی کو کافی سمجھتے تھے۔ فقہاء عراق جیسے ابراہیم نخعی[2] اور ان کے اصحاب بھی علم و حدیث میں اپنے آپ کو کم
[1] الفکر السامی: ۱؍۳۱۲۔ [2] ابو عمران : … ابراہیم بن یزید نخعی کوفی … فقہ ابن مسعود کے وارث اور دبستان فکر و قیاس کے ایک بہت بڑے فقیہ ہیں ۔ ۲۹۶ھ میں وفات ہوئی۔ حدیث و فقہ کے جامع تھے۔ بالاتفاق انہیں ثقہ اور حجت سمجھا جاتا ہے۔ شعبی نے ان کی وفات کی خبر پا کر کہا: ابراہیم نے اپنا جیسا کوئی شخص نہیں چھوڑا۔ ان کے مزید حالات ان کتابوں میں پڑھیں : طبقات ابن سعد: ۶؍۷۱۔ صفۃ الصفوۃ : ۳؍۸۶ ۔ التذکرہ : ۱؍۷۳ ۔ الحلیہ : ۴؍۲۱۷۔ تہذیب التہذیب: ۱؍۸۷۔