کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 76
انہیں اسباب و وجوہ کی بنا پر خود عراقی وفقہاء بھی قبول سنن و اخبار کے لیے ایسی احتیاط برتنے لگے اور ایسی شرطیں عائد کرنے لگے جن کی طرف ان کی پیش رو اور اسلاف توجہ نہیں فرماتے تھے تاکہ محارب فرقوں اور اہل زیغ و ضلال کے افکار ان کی فقہ میں شامل ہو کر فسادِ دین کا باعث نہ بن سکیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر عراقیوں نے کتنی احتیاط برتی ہو گی جو عراقیوں سے اتنے خائف رہا کرتے تھے کہ بقول اہل حجاز … عراقیوں یا شامیوں کی کوئی حدیث اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ حجازیوں کے یہاں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔[1] عراقیوں کے سب سے صحیح سلسلۂ اسناد، حدث سفیان الثوری عن منصور المعتمر عن ابراہیم النخعی عن علقمۃ النخعی عن عبداللّٰه بن مسعود … کے بارے میں ایک حجازی غلام سے پوچھاگیا کہ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا: اگر حجاز میں اس کی کوئی اصل نہیں تو یہ صحیح اور قابل قبول نہیں ۔[2] عباس نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن مدنی [3]کو مشیر بنایا۔ وہ کچھ دنوں بعد سب کچھ چھوڑ کر مدینہ واپس چلے آئے۔ ان سے لوگوں نے پوچھا: ، آپ نے عراق اور اہل عراق کو کیسا پایا؟ انہوں نے کہا: ہماری حلال چیز ان کے یہاں حرام اور حرام حلال ہے۔ وہاں میں چالیس ہزار سے زیادہ ایسے آدمی چھوڑ آیا ہوں جو اس دین کے ساتھ فریب کر رہے ہیں … انہیں کا یہ قول بھی منقول ہے کہ … گویا ہمارے یہاں جو نبی بھیجے گئے ان کے علاوہ کوئی دوسرا نبی ان
[1] الفکر السامی: ۱؍۳۱۲۔ [2] الفکر السامی: ۱؍۳۱۲۔ [3] ابو عثمان بن ابی عبدالرحمن تیمی مدنی ملقب بہ ’’ربیعۃ الرأی ‘‘ امام مجتہد تھے اور امام مالک کے شیخ بھی ۔ ہاشمیہ ( انبار۔ عراق)۱۳۶ ھ میں انتقال ہوا۔ بعض لوگوں نے ۱۳۳ ھ اور ۱۴۲ ھ بھی سن وفات بتلایا ہے۔ ان کے حالات ان کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں : التہذیب: ۳؍۲۵۸۔ تاریخ بغداد: ۸؍۴۲۰۔ الحلیۃ : ۲؍۲۵۹۔ صفۃ الصفوہ: ۲؍۱۴۸۔ الشذرات: ۱؍۱۹۴۔