کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 72
نے کہا: دس اونٹ ! میں نے کہا: دو انگلیوں کا؟ انہوں نے فرمایا: بیس اونٹ۔ میں نے پھر پوچھا: تین انگلیوں کا؟ انہوں نے فرمایا: تیس اونٹ۔ اس کے بعد میں نے اپنا آخری سوال کیا کہ چار کا؟ فرمایا: بیس اونٹ۔ میں نے کہا: جب زخم زیادہ ہو اور تکلیف بڑھ گئی ہو تو خون بہا کم ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا کیا تم عراقی ہو؟ ربیعہ نے جواب دیا: میں تلاشِ حق کرنے والا عالم یا تحصیل علم کرنے والا جاہل ہوں ۔ یہ سن کر سعید بن مسیب نے فرمایا: برادر زادے! یہ سنت ہے۔‘‘ [1] بات یہیں ختم ہو جاتی ہے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر تا کہ میری ہی رائے صحیح ہے اور نہ دوسرے کو جہالت کا الزام دیتاہے۔ نہ یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی حق پر ہوں اور دوسرا باطل پر … سعید بن مسیب اور حجازیوں کا مسلک ہے کہ تین انگلیوں تک مرد و عورت کا خون بہا برابر ہے۔ اس سے زیادہ کی صورت میں عورت کا خون بہا نصف ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر روایت ہے: عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے داداسے روایت کی کہ عورت کا خون بہا تین تک مرد کے برابر ہے۔[2] اور عراقیوں کا مسلک یہ ہے کہ شروع ہی سے عورت کا خون بہا مرد کے خون بہا کا نصف ہے۔ امام شعبی ( عامر بن شراحیل کوفی) کا قیاس کے سلسلے میں ایک شخص سے مباحثہ ہوا اس سے آپ نے کہا : کیا احنف بن قیس اور ایک چھوٹا بچہ دونوں کو شہید کر دیا جائے تو قصاص یکساں ہو گا؟ یا احنف بن قیس کی عقل و حلم کی وجہ سے ان کا کچھ زیادہ ہو گا؟ اس نے کہا: نہیں دونوں کا برابر ہو گا۔ آپ نے فرمایا:۔پھر قیاس کوئی چیز نہیں ۔ امام اوزاعی نے امام ابو حنیفہ سے مکہ مکرمہ کی ایک ملاقات میں پوچھا آپ رکوع کے وقت رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح روایت نہیں ۔ امام اوزاعی نے کہا: یہ کیسے؟ خود مجھ سے زہری نے یہ حدیث بیان کی۔ ان
[1] المؤطا مع شرح زمرانی : ۴؍۱۸۸۔ مصنف عبدالرزاق : ۹؍۳۴۹۔ سنن البیہقی : ۸؍۹۶۔ [2] النسائی: ۸؍۵۴۔ دار قطنی: ۴؍۳۶۴۔