کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 71
حسن بصری۔ مکحول شام۔ عطاء خراساں ۔علقمہ کوفہ وغیرہم ۔ یہ سبھی حضرات فقہ و افتاء اور اجتہاد کا کام صحابۂ کرام کی موجودگی ہی میں کیا کرتے تھے جن سے انہوں نے علم و فقہ اور ادب و تربیت کا فیضان پایا اور جن کے مناہج استنباط سے وہ متاثر ہوئے۔ تابعین کرام بھی اپنے باہمی اختلاف کے وقت آدابِ صحابہ کے دائرے سے نکلے اور نہ ان کے طور طریقوں کو چھوڑ کر مقررہ اُصول اور متعینہ حدود سے تجاوز کیا۔ یہی وہ فقہاء جمہور ہیں جن سے جماہیر اُمت نے اثر قبول کیا اور جن سے فقہ کی دولت پائی۔ خون بہا کے سلسلے میں پیش آنے والے ان دو مباحثوں سے ادب تابعین کے حسن و خوبی کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ عبدالرزاق[1] نے بطریق شعبی اس روایت کی تخریج کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص قاضی شریح کے پاس آیا اور اس سے انگلیوں کے خون بہا کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہر انگلی پر دس اونٹ! اس نے کہا: سبحان اللہ ! کیا انگوٹھا اور چھنگلیا دونوں برابر ہیں ؟ قاضی شریح نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو۔ سنت نے قیاس سے منع کیا ہے۔ اس کی پیروی کرواور نئی بات نہ نکالو۔ مؤطا میں امام مالک نے ربیعہ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ: ’’سعید بن مسیب سے میں نے پوچھا کہ عورت کی انگلی کا خون بہا کیا ہے؟ انہوں
[1] المصنف: الفکر السامی: ۱؍۳۹۱۔ ابن المنذر نے بھی سند صحیح کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔