کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 69
۱۔ صحابۂ کرام اختلاف سے اجتناب کرتے تھے اگر اس سے بچنے کی کچھ بھی گنجائش ہوتی تو ان کی پوری کوشش یہی ہوتی کہ اختلاف پیدا ہی نہ ہو سکے۔ ۲۔ اختلاف کے جب معقول اسباب ہوتے : مثلاً کسی سنت کا علم کسی کو ہے اور کوئی اس سے ناواقف ہے، اس پر عمل کرنا ہو ۔نص یا کسی لفظ کے سمجھنے میں اختلاف ہو تو وہ اپنے حدود سے آگے نہ بڑھتے اور حق بات فوراً قبول کر لیتے۔ نہ ہی اپنی غلطی کے اعتراف میں کوئی سبکی محسوس کرتے ۔ اسی طرح علم و فضل اور تفقہ رکھنے والے حضرات کا وہ بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔ کوئی اپنے مرتبہ سے آگے نہ بڑھتا اور نہ اپنے کسی بھائی کا حق مارتا۔ ہر ایک کا خیال اور کوشش ہوتی کہ رائے مشترک اور متحد ہی رہے … ہو سکتا ہے اس کا وہ خیال صحیح ہو جو اس کے نزدیک راجح ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے بھائی کی رائے جسے وہ مرجوح سمجھ رہا ہے وہی صحیح ہو۔ یعنی جسے اس نے راجح سمجھ رکھا ہے وہ مرجوح اور جسے مرجوح سمجھ رکھا ہے وہ راجح ہو سکتا ہے۔ ۳۔ اپنے درمیان اخوتِ اسلامی کو وہ اسلام کی ایک اہم بنیاد سمجھتے تھے جو اجتہادی مسائل میں اتفاق و اختلاف سے ایک بلند و بالا چیز ہے۔ ۴۔ اعتقادی مسائل میں اختلاف نہیں ہوا کرتا تھابلکہ صرف فروعی مسائل تک ہی محدود رہتا۔ ۵۔ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ سے پہلے صحابۂ کرام مدینہ منورہ ہی میں رہا کرتے تھے اور کچھ تھوڑے سے صحابہ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر تھے۔جہاد کی ضرورت پیش آتی جبھی باہر جاتے اور پھر واپس پلٹ جاتے۔ جس سے آسانی کے ساتھ ان کا اجتماع اور بہت سے مسائل و معاملات میں تبادلۂ خیال اور اجماع بھی ہو جایا کرتا تھا۔ ۶۔ قراء و فقہاء کی حیثیت سیاسی شخصیتوں کی طرح ممتاز و نمایاں تھی اور ہر ایک کا غیر متنازع مقام و مرتبہ ہوا کرتا تھا۔ فقہ کے جس پہلو اور جس گوشے میں زیادہ مہارت ہوتی اسی کے لحاظ سے اس کی شہرت بھی ہوتی۔ ان کی متعین راہیں اور مسالک استنباط بھی واضح