کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 65
مشکل مسائل کے حل کے لیے سیّدنا عمر سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بدری وغیر بدری شیوخ انصار و مہاجرین وغیرھم کے ساتھ بلایا کرتے تھے۔ [1] اختلافی مسائل فقہ اور ان میں اپنے مسلک کے اظہار کے لیے صحابۂ کرام کا جو طرزِ عمل تھا ان کی تلاش و جستجو کرنا چاہیں تو کئی ایک کتابیں تیار ہو جائیں ۔ لیکن ہم یہاں ان کے صرف چند نمونے پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں وہ آداب نظر آجائیں جن کی آغوش میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پرورش پائی اور اس کا بھی اچھی طرح علم ہو جائے کہ وہ کس طرح ہر حال میں آداب اختلاف کا التزام کیا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام کے درمیان اختلافات اور پھر جنگوں کے جو حادثات پیش آئے جن کے اسباب و علل کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے اس عالم رستا خیز میں بھی انہوں نے اہل علم و فضل کے مقام و مرتبہ کو فراموش نہ کیا۔ ان عظیم فتنوں میں بھی بزرگوں کے مناقب و ماٰثران کی نظر سے اوجھل نہ ہو سکے… یہ ہیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں مروان بن حکم نے کہا: میں نے علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کریم کسی کو نہ دیکھا۔ جنگ جمل کے روز بھی وہ ہمارے ولی تھے۔ ان کا منادی آواز دیتا تھا: کسی زخمی کو نہ مارا جائے اور نہ اس کا کام تمام کیا جائے۔[2] جنگ جمل کے بعد عمران بن طلحہ ایک روز سیّدنا علی کے پاس گئے تو انہیں خوش آمدید کہہ کر قریب کرتے ہوئے کہا: میری تمنا ہے کہ مجھے اور آپ کے باپ کو اللہ تعالیٰ ان میں سے بنائے جن کے بارے میں اس نے کہا ہے: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَo﴾ (الحجر: ۴۷) ’’اور ان کے سینوں میں جو کینے تھے سب ہم نے کھینچ لیے۔ تختوں پر روبرو بیٹھے وہ آپس میں بھائی ہیں ۔‘‘
[1] مصنف عبدالرزاق: ۱۱؍۲۸۔ رقم: ۳۰۴۸۹۔ المحصول: ۲؍ ق ۱ ؍ ۲۱۷۔ [2] حیاۃ الصحابۃ: ۳؍۱۲۔