کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 57
مانعین زکوٰۃ یہ بھول گئے یا ان کا تجاہل عارفانہ تھا کہ یہ خطاب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ آپ کے بعد جو بھی خلیفہ اور نائب ہو اسے بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ آپ کو یہ خطاب بحیثیت حاکم و امامِ مسلمین ہے اور زکوٰۃ لے کر اس کے مستحقین تک پہنچانا ، معاشرے کی تنظیم و نگرانی میں اقامت حدود وغیرہ جیسا ایک داخلی معاملہ ہے جس کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں آپ کے نائبین تک منتقل ہوتی رہے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والا ہر مسلمان ، نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی کی بھیْ بیعت کرتا تھا جس سے ان دونوں کے درمیان تفریق کا جواز کبھی نہیں پیدا ہو سکتا۔ خلیفہ ٔ اوّل سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر حال میں یہ چاہتے تھے کہ اشاعت اسلام کی رفتار بدستور جاری رہے اس لیے انہوں نے مانعین زکوٰۃ سے جنگ کا فیصلہ کیا تاکہ وہ توبہ کر کے ادائیگی زکوٰۃ پر آمادہ ہوجائیں اور پھر دائرۂ اسلام میں داخل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے ہر عہد کی پابندی کریں ۔[1] خلیفۂ اوّل کے اس موقف اور سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو ابتداء میں مانعین زکوٰۃ سے جنگ جائز نہیں سمجھتے تھے ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ جس کے بارے میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بعض اہل عرب کے کفر و عصیان کا مسئلہ در پیش ہوا تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دیا ہے: (( أمرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا: لا الٰہ الا اللّٰه ۔ فمن قالھا فقد عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقھا۔ و حسابہ علی اللّٰہ تعالیٰ۔)) تو جب یہ لوگ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر اس دنیا میں اپنے جان و مال کی امان پا چکے
[1] حاشیہ فتح الباری : ۳؍ ۲۱۲۔