کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 55
فضائل اور مناقب کا بھی ذکر فرمایا جو ان کے خطباء بیان نہ کر سکے تھے۔ اس کے بعد انصار خطباء کے دائرہ سے نکل کر آپ نے فرمایا: معاملہ صرف مدینہ منورہ کا نہیں آج سارے جزیرۃ العرب پر اسلام سایہ فگن ہے۔ مدینہ طیبہ میں مقیم مہاجرین اپنے انصار بھائیوں کی فضیلت و برتری کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں مستحق خلافت سمجھ لیں جب بھی بقیہ اہل عرب غیر قریشی کی خلافت تسلیم نہیں کر سکتے اور جب تک ہمارا اتحاد بر قرار نہیں رہے گا اس وقت تک ہم جزیرۃ العرب سے باہر دعوتِ اسلام نہیں پھیلا سکتے۔ اسلام کے عروج و اقبال دلوں کی ہم آہنگی ، مکمل اتحاد و اتفاق اور دعوت کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے کوئی قریشی خلیفہ ہونا ضروری ہے۔ ‘‘ اس کے بعد آپ نے دو ایسے قریشیوں یعنی عمر فاروق اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما جن کی فضیلت و بزرگی کے سبھی قائل تھے اس میں سے کسی ایک کے انتخاب کی دعوت دی اور خود اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔‘‘
سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
’’ اس انتخاب (یعنی عمرو ابو عبیدہ کی نامزدگی) کے علاوہ مجھے آپ کی ہر بات پسند آئی ۔ بخدا! میرے کسی اقدام سے میری گردن مار دی جائے جس سے مجھ پر کوئی گناہ عائد نہ ہو۔ یہ چیز میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ مجھے ایسی قوم کا حکمران بنایا جائے جس میں ابو بکر جیسی عظیم شخصیت ہو۔
پھر انصار کا ایک دوسرا خطیب اس ارادہ سے اُٹھا کہ پہلے ہی خطیب کے دائرے تک اس موضوع کو کھینچ لائے۔ اس نے کہا: اے قریش! ایک امیر ہمار ااور ایک تمہارا ہونا چاہیے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس تجویز کے بعد چہ می گوئی بڑھ گئی ، آوازیں بلند ہونے لگیں جن سے اختلاف کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ [1]
میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ بڑھائیے ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا
[1] اختلاف سے انتشار ۔و تنازع مراد ہے۔