کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 54
نے ان کے خطیب کی بات سننے بیٹھ گئے جس نے انصار کے ایسے فضائل و مآثر بیان کیے جن سے یہ معلوم ہو کہ انصار دوسروں کے مقابلہ میں خلافتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘ یہاں ایک نکتہ پر غور کیجیے ۔ انصار مدینہ منورہ کے اصل باشندے ہیں اور انہیں کی غالب اکثریت بھی ہے ۔ انہوں نے ہی مہاجرین کو پناہ دی۔ان کی مدد کی۔ گھر بار دیا اور اسلام کے لیے گھروں سے پہلے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیے ۔ کوئی ایسا مہاجر نہیں جس کا کوئی انصاری بھائی نہ ہو اور جس کے اس پر احسانات نہ ہوں ۔ اگر مسئلہ خلافت پر کتاب اللہ یا سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کوئی نص یا واضح حکم ہوتا تو اس کے فیصلہ سے یہ معاملہ صاف ہو جاتا اور اختلاف بھی ختم ہو جاتا ۔ لیکن کوئی ایسی چیز پہلے سے موجود نہ تھی اس لیے سوائے اس کے کوئی صورت نہ تھی کہ کوئی ایسا مقتدر اور بااثر شخص سامنے آئے جو حکمت و مہارت کی ساری خوبیوں سے مزین ہو اور آدابِ اختلاف سے واقف ہو۔ عقلی سطح پر بھی ایسی معتدل اور پر سکون گفتگو کر سکے جو فریقین کے درمیان اچھے جذبات و احساسات پیدا کر سکے جس سے حائل خلیج دُور ہو اور اس بحران سے نکلا جا سکے۔ یہ سارے خیالات سیّدنا عمر کے ہیں ۔ ’’ انصار کا خطیب جب خاموش ہو گیا تو میں نے جو باتیں سلیقہ سے کہنے کے لیی دل میں سوچ رکھی تھیں انہیں کہنا چاہا لیکن سیّدنا ابو بکر نے مجھے روک دیا۔ انہیں میں ناراض نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ صاحب علم و وقار تھے۔ انہوں نے جب بولنا شروع کیا تو بخدا! ارتجالاً ہی وہ ساری باتیں جو میں نے بہت سوچ سمجھ کر ذہن میں مرتب کی تھیں بالکل ویسے ہی یا اس سے اچھے ڈھنگ سے آپ نے بیان فرما دیں ۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: اپنے اندر جن خوبیوں کا آپ نے ذکر کیا اس کے آپ پورے اہل ہیں ۔ اس کے علاوہ انصار نے دین اور اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے جو کچھ کیا تھا ان کی تائید اور پھر تعریف کی اور کچھ ایسے