کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 53
شکن ہوتا ہے کہ صبر و حلم و دیگر فضائل سے تجاوز کر کے ایسی پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے جسے سلجھانا اور قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر وہ صحابۂ کرام جنہوں نے سایۂ نبوت میں پرورش پائی، اتفاق و اختلاف اور زندگی کے ہر معاملے میں جس کے ادب و تربیت کو وہ فیصلہ کن طاقت مانتے تھے۔ یہی اُصول و آداب ممکنہ خطرات کے ازالہ ، دعوتِ اسلام کی حفاظت اور وحدتِ اُمت کی نگہداشت، اور دیگر مسائل و معاملات زندگی کو تقریباً اسی شکل میں چلانے کے ضامن تھے جیسے کہ وہ عہد رسالت میں تھے۔ راویوں نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص سیّدنا ابو بکر صدیق و سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ انصار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں ۔اگر لوگوں کے اُمور سے آپ حضرات کو کچھ دلچسپی اور ضرورت ہے تو ان کا معاملہ بڑھنے سے پہلے وہاں پہنچ جائیں ۔ یہ خبر ان دونوں حضرات کو ایسے وقت ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین بھی نہ ہو سکی تھی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ چلیے ہم اپنے انصار بھائیوں کو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔اس کے بعد کا واقعہ خود سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے سماعت فرمائیے: ’’ انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنے اشراف اور معززین کے ساتھ اجتماع کر کے ہماری مخالفت کی تو ہم ان کے یہاں پہنچے۔ وہاں ہمیں دو صالح حضرات ملے۔ جنہوں نے قوم کا رجحان بتلایا اور پوچھا کہ اے مہاجرو! کہاں کا ارادہ ہے؟ ہم نے کہاں کہ ہم اپنے انصار بھائی کے پاس جا رہے ہیں ۔ ان دونوں نے وہاں جانے سے ہمیں منع کیا اور کہا کہ وہاں مہاجرین کا جانا ٹھیک نہیں ۔ آپ لوگ بس اپنا فیصلہ کریں ۔ ہم نے جواب دیا بخدا ہم تو ضرور جائیں گے اور یہ کہہ کر سقیفۂ بنی ساعہ پہنچے ۔ وہاں ہم نے ایک شخص کو دیکھا جو چادر لپیٹے ہوئے ہے۔ اس کے بارے میں پوچھا گیا تو لوگوں نے بتلایا کہ یہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ میں نے کہا انہیں کیا ہوا ہے تو معلوم ہوا کہ انہیں کچھ تکلیف اور درد ہے۔ پھر ہم