کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 52
انہیں دنیاوی عزت اور اخروی سعادت حاصل ہوئی تھی لیکن شدتِ حزن و غم اور کرب فراق کے باوجود انہوں نے یہ آیت پڑھی:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ o ﴾ (آل عمران : ۱۴۴)
’’اور محمد تو ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول ہو چکے ہیں ۔ تو کیا اگر وہ انتقال کر جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ پائے گا۔ اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلدی صلہ عطا فرمائے گا۔‘‘
پھر صحابۂ کرام اپنے بکھرے معاملات کی ترتیب و تنظیم، دائمی دعوتِ اسلام کی حفاظت، اور اسباب فتنہ کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔
خلافت و قیادت کے صحیح حق دار سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی طرح کسی دوسرے پر لوگوں کی نظر نہیں اُٹھتی تھی۔ اس لیے کہ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر ، رفیق ہجرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب زوجہ کے والد محترم تھے اور ہر اہم معاملے میں آپ کی شرکت ضروری تھی۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بھی وہ ممتاز شخصیت تھی جس کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو عزت و شوکت تھی جس نے مشرکین کی ناک خاک آلود کر دی اور جس کی رائے کو تائید ربانی حاصل تھی۔ احادیث میں اکثر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فرمایا اور ان کے ساتھ ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما تھے۔
ایسی صفات اس حادثہ کا اثر کم کر دیتی ہیں ، جن سے قدم لڑ کھڑانے لگیں اور دلوں کا عالم زیرو زبر ہونے لگے۔ اگرچہ اس خلاف کا احساس جو ایسے مواقع پر نظر آتا ہے وہ اتنا حوصلہ