کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 50
فرمایا: ابن عباس! آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت میں نے جو کہا تھا اس کا سبب کیا تھا؟ میں نے کہا: امیر المؤمنین! میں نہیں جانتا آپ ہی زیادہ جان سکتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ آیت کریمہ:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا﴾ (البقرہ: ۱۴۳)
’’اور یوں ہی ہم نے تمہیں معتدل و افضل اُمت بنایا تاکہ لوگوں پر تم گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں ۔‘‘
بخدا! جب میں اسے پڑھتا تو خیال ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت میں اسی طرح باقی رہیں گے تاکہ اس کے آخری عمل کی بھی شہادت دیں ۔ اسی نے مجھ سے وہ بات کہلوائی جو میں نے کہی۔[1] گویا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آیاتِ کریمہ کے معانی میں اجتہاد کیا اور یہ سمجھا کہ اس سے شہادت دنیا مراد ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ اُمت کے آخری دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اسی طرح باقی رہیں گے۔
۲۔ تدفینِ رسول پر اختلاف:
صحابۂ کرام کے درمیان اس معاملہ میں بھی اختلاف ہوا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے۔ کسی نے کہامسجد نبوی میں آپ کو دفن کیا جائے۔ کسی کی رائے ہوئی کہ آپ کے اصحاب کے ساتھ آپ کی تدفین ہو۔ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
(( مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلاَّ دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ۔))
’’ہر نبی کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اس کی روح قبض ہوئی۔‘‘
یہ سن کر صحابۂ کرام نے اس بستر کو اُٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا اور وہیں زمین کھود
[1] سیرۃ ابن ہشام: ۲؍۶۶۱۔۶۶۶۔ سیّدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ بیعت صدیق اکبر کے وقت بھی آپ نے یہی فرمایا تھا۔