کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 49
۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے سلسلے میں اختلاف:
آپ کے انتقال کے بعد سب سے پہلا اختلاف آپ کی حقیقتِ وفات کے سلسلے میں ہوا۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اصرار تھا کہ آپ کی وفات نہیں ہوئی اور یہ محض منافقین کی اڑائی ہوئی خبر ہے جس پر آپ نے انہیں دھمکیاں بھی دیں ۔ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب تشریف لائے تو آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ o ﴾ (آل عمران : ۱۴۴)
’’اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول ہو چکے ہیں ۔ تو کیا اگر وہ انتقال کر جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلدی صلہ عطا فرمائے گا۔‘‘
اور…
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ o ﴾ (الزمر: ۳۰)
’’بے شک تمہیں بھی موت آئے گی اور انہیں بھی مرنا ہے۔‘‘
یہ آیتیں سنتے ہی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے تلوار اور ساتھ ہی آپ خود بھی زمین پر گر پڑے۔ پھر آپ کو یقین آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور سلسلۂ وحی بھی منقطع ہو گیا ۔اس کے بعد آپ نے سیّدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کی تلاوت کردہ آیتوں کے بارے میں کہا کہ:بخدا ! گویا کہ میں نے انہیں کبھی پڑھا ہی نہیں ۔[1]
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مجھ سے
[1] الاحکام: ۲؍۱۲۵ ۔ تفسیر ابن کثیر : ۴؍۵۲۔ تفسیر طبری: ۲۴؍ ۳۰۲۔ سیرۃ ابن ہشام: ۲؍۶۵۵۔