کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 48
عہد صحابہ میں آدابِ اختلاف:
بعض مسلم مصنفین کی کوشش یہ رہی ہے کہ جماعتِ صحابۂ کرام کی ایسی تصویر کشی کریں جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ اس جماعت جیسے ممکنہ عملی اوصاف رکھنے والے افراد اب اس اُمت میں پیدا ہی نہیں ہو سکتے جو علم و عمل میں ان کی یاد گار اور سچے جانشین ثابت ہو سکیں ۔ ایسا خیال جو اسلام سے اسی طرح ایک کھلی ہوئی بد گمانی ہے جیسے بعض کج فکر حضرات کا یہ خیال کہ عہد صحابہ کے بعد کتاب اللہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سائے میں اب دوبارہ اسلامی زندگی کا آعاز ایک امر محال ہے جس کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ لوگ ایسے خیالات کی اشاعت کر کے ان دلوں سے اُمید کی کرن بھی ختم کر دینا چاہتے ہیں جن کی خواہش و تمنا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے سائے میں ہماری اجتماعی زندگی پروان چڑھے۔
صحابۂ کرام کو ایسی مثالی اُمت کتاب اللہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہی بنایا اور یہ دونوں چیزیں ہمارے سامنے ہیں جن پر اسی طرح عمل کیا جائے جیسے صحابۂ کرام کرتے تھے اور ان کی اختیار کردہ راہوں پر چلتے رہیں تو ان کی قوت و اثر سے ایک مثالی اور قابل تقلید جماعت پھر عالم وجود میں آسکتی ہے۔ شرفِ صحابیت تو نہیں مل سکتا مگر یہ کہنا کہ اب کسی شکل میں پہلی جیسی اسلامی زندگی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ کتاب اللہ و سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ضعف و نقص ماننے کے مترادف ہے اور اس بات کی ناکام کوشش کہ ان دونوں کا اثر صرف مخصوص حالات کے تابع تھا۔ اور اب اس نئے زمانے میں جو زندگی کے نئے نئے تقاضے اور اُصول و ضوابط سامنے آئے ہیں انہوں نے ان دونوں کو پس پشت ڈال دیا (معاذ اللہ ) ایسا کہنے والا یقینی طور پر انکار و عصیان کا صریحاً ارتکاب کر رہا ہے۔
صحابۂ کرام کے اندر بہت سے اُمور میں اختلاف تھا جو اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر ختم ہو گیا مگر آپ ہی کے دور میں جب یہ فضا تھی تو بعد میں کیسے نہ ہو؟ یہ الگ بات ہے کہ ان کے درمیان جو اختلاف مختلف اسباب کے تحت ہوئے اس کے اُصول و آداب بھی ان کے سامنے ہوتے… بعض اہم اختلافی معاملات یہ ہیں :