کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 47
کتاب اللہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے وہ فوراً فیصلہ لے لیتے جس سے ان کا سارا اختلاف دُور ہو جاتا۔
۳۔ حکم خدا اور رسول کے سامنے وہ فوراً جھک جاتے۔ اسے مکمل طور پر تسلیم کر لیتے اور ہمیشہ اس کا التزام رکھتے۔
۴۔ جن اُمور میں تاویل ممکن ہوتی ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تصویب فرماتے اور ان کے استنباط کو درست قرار دیتے۔ ہر صحابی کو یہ احساس بھی رہتا کہ اس کے بھائی کی رائے بھی اسی طرح درست ہو سکتی ہے جیسے اس کی نظر میں اپنی رائے درست اور برحق ہے۔ یہ احساس ہی اس بات کا ضامن ہے کہ اپنے بھائی کا احترام کیا جائے اور تعصب رائے سے دُور رہا جائے۔
۵۔ نفسانیت سے دُور رہ کر احتیاط و تقویٰ کی راہ اختیار کرتے۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ حقیقت تک رسائی ہی فریقین کا مطمح نظر اور ان کا مقصودِ اصلی ہوتا۔ اور ان کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی کہ اس کا اظہار خود اس کی زبان سے یا اس کے کسی بھائی کی زبان سے ہو رہا ہے۔
۶۔ اسلام کے ان آداب کی رعایت کرتے کہ نرمی کے ساتھ اچھی طرح گفتگو کی جائے جارحانہ الفاظ اور طرزِ تخاطب سے اجتناب کیا جائے اور ہر ایک کی بات نیک نیتی اور دل جمعی سے سنی جائے۔
۷۔ گفتگو کی تلخی سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہوئے موضوع بحث میں ایسی کوشش جس سے ہر ایک کی رائے میں سنجیدگی اور احترام کا پہلو غالب رہے۔ تاکہ مخالف ہماری اپنی رائے قبول کر لے یا اس کے سامنے اچھی رائے پیش ہو جائے۔
عہد رسالت میں اختلاف کے جو واقعات پیش آئے اور ان میں غورو خوض کر کے اُصول و آداب اختلاف کا یہ خلاصہ نذرِ قارئین کر دیا۔