کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 46
دونوں نے آوازیں بلند کیں ۔ ایک نے اقرع بن حابس اور دوسرے نے قعقاع بن معبد بن زرارہ کو اشارہ کیا تو سیّدناابو بکر نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ میری مخالفت کر رہے ہیں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ! میں نے آپ سے اختلاف نہیں کیا۔اسی پر دونوں کی آواز اونچی ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ o ﴾ (الحجرات: ۲)
’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ اس طرح زور سے بات کرو جیسے آپس میں کرتے ہو کہیں تمہارے عمل ضائع ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر ہی نہ ہو۔‘‘
سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس آیت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہر بات آپ سے سمجھ لیا کرتے تھے۔[1]
عہد رسالت میں آدابِ اختلاف:
اس عہد کے آدابِ اختلاف کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی امکانی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ اسی لیے مسائل اور فروعی اُمور میں زیادہ گفتگو کی بجائے ہدایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روشنی میں مسائل و معاملات کا حل تلاش کر لیا کرتے تھے۔ [2]
اسی طرح کسی مسئلہ کا حل نکال لیا جائے تو اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ تنازع اور افتراق کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
۲۔ اختلاف سے بچنے کی کوششوں کے باوجود اگر کسی معاملہ میں اختلاف ہو جاتا تو
[1] بخاری ۔ حاشیہ فتح الباری : ۸؍۶۶ و ۵۴ ۴ و ۱۳؍۲۳۵۔
[2] فتح الباری: ۱۳؍ ۲۱۹، ۲۲۸۔