کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 44
کی محبت و اخوت پر آنچ آسکے۔
صحابہ کو اختلاف سے اجتناب کی ہدایت و تنبیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اس اُمت کی بقا اسی میں ہے کہ محبت خداوندی کے سایہ میں ان کے دل آپس میں ملے رہیں ۔ کیونکہ اگر دل بچھڑ جائیں تو ان کی موت ہے۔اسی لیے آپ اختلاف سے روکتے اور انھیں تنبیہ و ہدایت فرماتے رہتے کہ لا تختلفوا فتختلف قلوبکم [1] اور صحابہ کرام بھی سمجھتے تھے کہ اختلاف کا نتیجہ کبھی خیر نہیں ہوتا بلکہ شر ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : الخلاف شر۔
اختلاف کی بیج پنپنے سے پہلے ہی آپ اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ:
’’ میں ایک روز دوپہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا وہاں میں نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو کسی آیت کے سلسلے میں اختلافی بحث کر رہے تھے۔ ان کی آواز سن کر آپ غضب ناک ہو کر نکلے اور فرمایا:
(( انما ھلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب۔)) [2]
’’تم سے پہلے کے لوگ کتاب میں اختلاف کر کے ہی ہلاک ہوئے۔‘‘
نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ کہتے ہوئے سنا:
’’ میں نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھتے سنا جو اس طریقہ کے خلاف پڑھ رہا تھا جسے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا تھا۔ اس لیے میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور آپ کے پاس اسے لے کر حاضر ہوا۔ ہماری بات سن کر آپ نے ارشاد فرمایا: تم دونوں نے اچھا کیا کہ اصلاح کے لیے یہاں آئے۔ شعبہ نے کہا: میرا خیال ہے
[1] بخاری۔ کما فی الجامع الصغیر : ۲؍۴۹۴۔
[2] الاحکام: ۵؍۶۶۔