کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 43
’’ اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا عورتوں سے صحبت کی اور پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔‘‘
دِقت نظر سے کام لیا اور نہ ہی استفسار کیا۔
حدیث اُسامہ بن زید سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ گویا یہ آیت کریمہ:
﴿فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا﴾ (المؤمن: ۸۵)
’’تو ان کے ایمان نے انہیں فائدہ نہ پہنچایا جب انہوں نے ہماری طاقت اور عذاب دیکھا۔‘‘
اس سے یہ مفہوم ان کے ذہن میں آیا کہ نفع دنیا و آخرت دونوں کی اس میں نفی کی گئی ہے اور یہ صرف آخرت کے لیے خاص نہیں ۔ جیسا کہ آیت سے ظاہر ہوتا ہے اور شاید اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ بھی کی۔
صحابۂ کرام کے ان فتاویٰ کو آپ نے قبول نہیں کیا اور ان کی صحیح راہنمائی فرمائی۔[1]
اپنے اُمور و معاملات میں صحابہ کرام آپ سے ہدایت حاصل کرتے اوراستغفار کرتے تو انہیں صحیح مسائل و احکام بتلاتے اور خود ان کا فیصلہ اور تصفیہ فرماتے۔[2]
ان کے اچھے کام دیکھ کر پسند فرماتے اور ان کی تعریف کرتے اور کوئی نا مناسب بات دیکھتے تو اسے ناپسند فرماتے۔ صحابۂ کرام آپ سے یہ باتیں سیکھ کر انہیں ایک دوسرے سے بیان کرتے جس سے عوام و خواص ہر ایک کو ان کی خبر ہو جاتی۔ ان میں کبھی اختلاف ہوتا اور مختلف فیہ مسائل پر گفتگو ہوتی تو اعتدال و سنجیدگی کے ساتھ ہوتی اور تنازع و انشقاق تک کبھی نہ پہنچتی نہ ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور الزام تراشی ہوتی۔ کیونکہ وہ ہر مسئلہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنا مرجع مانتے تھے اورکوئی ایسی بات نہیں رہنے دیتے جس سے ان
[1] ابن حز م نے صحابۂ کرام کے ایسے بہت سے فتاویٰ جمع کیے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا۔ دیکھیے: الاحکام : ۶؍۸۴،۸۵ و ۲؍۱۲۶،۱۲۷۔
[2] حجۃ اللہ البالغہ : ۱؍۲۹۸۔