کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 42
میں بھی ہے:
﴿فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o ﴾ (النحل : ۴۳)
’’اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔‘‘
سیّدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ ( وہ جہاد جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود شرکت نہ فرمائی ہو) میں بھیجا تو ہم جہینہ کے علاقے میں صبح کو پہنچے۔ وہاں ایک آدمی کو میں نے جا پکڑا جس نے لا الٰہ الا اللہ پڑھا مگر میں نے اسے نیزہ مار دیا۔ میرے دل میں اس بات کی کھٹک پیدا ہوئی جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ نے فرمایا: اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا ، پھ ربھی تم نے اسے مار ڈالا؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! اس نے تو ہتھیار کے خطرے اور جان کے خوف سے ایسا کیا۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے اسی لیے کہا؟ بروزِ قیامت تم اس کے لا الٰہ الا اللہ کا کیا جواب دو گے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس بات کو دہراتے رہے جس سے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کاش! اس سے پہلے میں مسلمان نہ ہوا ہوتا۔‘‘ [1]
پہلی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ایسے دلائل کے عموم کو مسترد فرمایا جن سے پانی پائے جانے کی صورت میں اس کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔ اور اس کے احوال و ظروف سے انہوں نے صرفِ نظر کر لیا اور اس آیت تک ان کا ذہن نہ پہنچا:
﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا﴾ (المائدہ : ۶)
[1] امام احمد، بخاری ، مسلم، ابو داؤد، نسائی ، طبرانی نے اس کی تخریج کی ہے اور بعض الفاظ میں اختلاف بھی ہے۔ دیکھیے :صحیح بخاری : ۷؍۳۹۸۔