کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 41
چوتھی قسم : … قطعیت کے ساتھ بلا کسی دلیل کے ایسی تاویل کہ شارع کی مراد صرف یہی ہے۔
پانچویں قسم : … مبنی بر نفسانیت تاویل ۔ جیسے باطنیہ وغیرہ کی تاویلات۔
یہ تاویلات مذکورہ تاویل مستبعد کے ضمن میں داخل ہیں ۔
اہل اجتہاد صحابۂ کرام:
اجتہاد اور اس کے نتائج کی عظمت کے پیش نظر وہی صحابۂ کرام اس میدان میں اُترتے جو اپنے اندر استنباط و استخراج مسائل کی مکمل صلاحیت موجود پاتے۔ بصورتِ دیگر جب کسی صحابی کی غلطی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی تو آپ ناپسند فرماتے اور اس کی اجازت نہ دیتے۔
سیّدنا جابررضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ہم لوگ ایک سفر میں تھے ہمارے ایک ہم سفر کے سر پر پتھر لگا پھر اس کو احتلام ہو گیا۔ اپنے ساتھیوں سے اس نے پوچھا کہ کیا میں تیمم کر سکتا ہوں ؟تو سبھوں نے کہا کہ نہیں ؟ جب پانی سے وضو کر سکتے ہو تو تیمم کی رخصت نہیں ۔ یہ جواب سن کر اس نے غسل کیا جس سے اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انہیں حادثہ کی خبر دی تو آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ اللہ ہلاک کرے۔ تم جب جانتے نہیں تھے تو کیوں نہ پوچھ لیا؟ لا علمی و جہالت کا علاج تو سوال ہی ہے۔ اسے تیمم ہی کافی تھا۔ یا زخم پر ایک ٹکڑا لپیٹ کر اس پر مسح کر لیتا اور بقیہ سارے بدن پر پانی ڈال لیتا۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے فتویٰ دینے والوں کی زجر و توبیخ فرمائی اور انہیں گویا اپنے بھائی کا قاتل سمجھا اور وضاحت سے بتلا دیا کہ جو چیز معلوم نہیں اسے دریافت کر لینا ضروری ہے۔ بغیر سمجھے ہوئے فتویٰ دینا اس کا حل نہیں ۔ ضرورتِ سوال کی یہی تنبیہ قرآنِ حکیم
[1] سنن ابی داؤد، باب فی المجروح یتیمم ، حدیث: ۳۳۶۔ تخریج ابن ماجہ ، حدیث: ۵۷۲ تصحیح ابن السکن در نیل الاوطار: ۱؍۳۲۳۔