کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 39
دوسری قسم …جسے ہر شخص سمجھ لے۔
تیسری قسم … جسے صرف اہل علم سمجھ لیں ۔
چوتھی قسم …جس کا علم صرف خدا کو ہے۔
تاویل جس کا معنی اور اس کی اقسام گذر چکی ہیں ۔ اس کے اورتفسیر کے درمیان مضبوط رشتہ ہے۔ بہت سی جگہوں پر تفسیر و تاویل کو ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:
﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّابِہٖ ﴾ (آل عمران: ۷)
’’اور اس کی صحیح تاویل اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے۔‘‘
بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں تاویل سے تفسیر و بیان مراد ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما و دیگر اسلاف کے اس سلسلے میں کوئی اقوال نقل کیے ہیں ۔
اسی طرح سیّدنا ابن عباس کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:اللّٰھم فقِّہہ فی الدین و علِّمہ التاویل میں تاویل کا استعمال تفسیر و بیان کے لیے ہے۔اگرچہ بعض اہل علم جیسے راغب اصفہانی نے تفسیر کو تاویل سے زیادہ عام بتایا ہے اور یہ کہا ہے کہ تفسیر کا استعمال الفاظ کے شرح و بیان اور تاویل کا معانی و کلام کے لیے زیادہ ہوتا ہے۔
کتاب و سنت کی ان مخصوص اصطلاحوں کے یہ رشتے اتنے گہرے ہیں کہ مفسرین نے تفسیر کے جو ضوابط متعین کیے ہیں انہیں تاویل کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
بلاشبہ کتاب حکیم کے بہت سے اُمور جیسے حقائق اسماء و صفات کی معرفت اور غیب کی تفصیلات وغیرہ کا علم صرف خدا کو ہے اور بعض اُمور و معاملات کی معرفت خدا نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی خاص کر دی ہے ۔ جن میں تفسیر و تاویل نہ کر کے ان حدود کا التزام ضروری ہے جو کتاب اللہ اور سنترسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دیے ہیں ۔