کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 38
﴿وَ مَا تُغْنِیْ الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَo﴾ (یونس: ۱۰۱)
’’آیتیں اور رسول ایسے لوگوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتے جو ایمان والے نہیں ۔‘‘
کی تفسیر کرتے ہوئے آیات سے ائمہ اور نذر سے انبیاء کرام مراد لیا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے:
﴿عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَo عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِo ﴾ (النباء: ۱، ۲)
’’آپس میں کس چیز کی چہ می گوئی کر رہے ہیں بڑی خبر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔‘‘
کی تفسیر کی ہے کہ ’’نباء عظیم‘‘ سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ [1]
تاویل کے قواعد و ضوابط:
مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ فکر و تدبر کی مناسب صلاحیت کے ساتھ یہ علم بھی ضروری ہے کہ نص کا مقتضی اور مدلول کیا ہے۔ ورنہ ظاہر ہی مراد لینے میں سلامتی ہے اور یہ تاویل بھی صرف اجتہادی اُمور میں ممکن ہے۔ اعتقادی مسائل میں کبھی بھی اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اور ظاہر نصوص کے ساتھ ان کے معانی و کیفیات مراد لینا ہی باعث سلامتی ہے۔ سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی موقف ہے۔
تاویل کی شدید ضرورت کے وقت نص کا فہم صحیح، اس کا تحلیل و تجزیہ مقاصد شریعت کے مطابق ازروئے لغت اس کے سارے وجوہ اور عام شرعی قواعد و اُصول کی معرفت لازم ہے۔ اسی لیے ظاہری نص سے حکم لگانے ، اس کے سارے تقاضے جاننے کے لیے اس کے تحلیل و تجزیہ کا فقہی اجتہاد اور اس شرعی اعتبار کی ایک اہم قسم سمجھا گیا ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے:
﴿فَاعْتَبِرُوْا یَآاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ (الحشر: ۲)
’’اے نگاہ والو! عبرت حاصل کرو۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ضوابط تفسیر کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں :
پہلی قسم … اہل عرب جسے اپنے کلام سے سمجھ لیں ۔
[1] اُصول الکافی: ۱؍۲۱۶۔