کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 37
الرَّضَاعَۃَ﴾ (البقرہ: ۲۳۳)
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔ یہ اس کے لیے ہے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہیے۔‘‘
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے اجماع کی حجت کا استدلال کیا :
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًاo﴾ (النساء: ۱۱۵)
’’حق راستہ واضح ہو جانے کے بعد بھی جو رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ سے الگ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے جو پلٹنے کی بڑی بُری جگہ ہے۔‘‘
اصولیوں نے حجیت قیاس اور اس کے دلیل شرعی ہونے کا اس آیت سے استدلال کیا ہے:
﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰٓا اُولِی الْاَبْصَارِ﴾ (الحشر: ۲)
’’اے نگاہ والو! عبرت حاصل کرو۔‘‘
یہ نتائج بظاہر آسان ہیں لیکن جب تک صاحب علم انسان فکر رسا اور بلندی نظر کا مالک نہ ہو اِن نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کے لیے جو بصیرت و تدبر درکار ہے وہ عامۃ الناس کے اندر بلکہ خواص میں بھی نہیں ۔
۳۔ تاویل مستبعد:
لفظ میں جس کی گنجائش اور تاویل کرنے والے کے پاس کوئی دلیل بھی نہ ہو ، مثلاً:
﴿وَ عَلٰمٰتٍ وَ بِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ o ﴾ (النحل : ۱۶)
’’علامتیں اور ستارے جن سے وہ راہ پاتے ہیں ۔‘‘
کی تفسیر میں بعض لوگوں نے کہا کہ نجم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علامات سے ائمہ کرام مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت کریمہ: