کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 35
نمازِ فجر پڑھ لی۔ میرے ساتھیوں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ عمرو! حالت جنابت ہی میں تم نے جماعت سے نماز پڑھ لی۔ میں نے عرض حال کیا اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا o ﴾ (النساء:۲۹ ) ’’اور اپنی جانیں قتل نہ کرو ۔بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ یہ سن کر آپ ہنسنے لگے اور کچھ نہیں فرمایا۔[1] تاویل اور اس کی قسمیں صحابہ کرام اپنے حالات و واقعات سے یہ سمجھتے تھے کہ دین اسلام میں سہولت و آسانی ہے اور شریعت نے فقہی مسائل میں مختلف مناہج اور طریقوں کی گنجائش رکھی ہے۔ ان کے درمیان عہد رسالت اور اس کے بعد جن مسائل پر اختلاف ہوا کہ کوئی ظاہری نص کو صحیح سمجھ رہا ہے کوئی اس کے متعدد گوشوں پر فکر و تدبیر سے کام لے رہا ہے اور اس کے کئی ایک معنی اس کی نظر میں ہیں ۔ جن کا ذکر بہت طویل ہو جائے گا۔ کیونکہ اس بحث سے قطع نظر صرف اس بیان اختلاف ہی کے لیے کئی جلدیں ناکافی ہو جائیں گی۔ اس لیے ہم ان سب کا ذکر نہیں کر سکتے۔ ماہر فقہاء و مجتہدین ہی ان معاملات میں اپنی وہ جولانی فکر دکھا سکتے ہیں جو مقاصد و مطالب شریعت کی تکمیل کر سکے۔ جہاں کبھی ظاہر لفظ اور کبھی تاویل کے ذریعہ اس کا نتیجہ سامنے آتا ہے اس موضوع پر ہم کچھ روشنی ڈال رہے ہیں ۔ اختصار کے ساتھ تاویل کی قسمیں اور اس کے ضوابط کا ذکر بھی قارئین کے لیے مفید ہو گا۔ ظاہر لفظ چھوڑ کر جو معنی مراد لیا جائے اسے تاویل کہتے ہیں اور اس کی قسمیں یہ ہیں :
[1] سنن ابی داؤد ، حدیث: ۳۳۴۔ باب اذا خاف الجنب البرد۔ فتح الباری : ۱؍۳۵۸۔ نیل الاوطار: ۱؍۳۲۴۔