کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 32
اس تیسری قسم میں یہ بات طے شدہ ہے کہ اتفاق اختلاف سے بہتر ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ابن حزم ظاہری نے اختلاف کی جو مذمت کی ہے اس پر آپ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ ابن حزم کی رائے ہے کہ کوئی اختلاف رحمت نہیں بلکہ اختلاف ہی اختلاف ہے۔ اختلاف کے خطرے اور اس کے نقصانات جاننے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ سیّدنا ہارونعلیہ السلام نے اختلاف کو گویا بتوں کی پرستش سے زیادہ مضر اور خطرناک سمجھا۔ سامری نے جب بچھڑے کی شکل میں سونے کا ایک بت بنا کر قوم سے کہا کہ: ﴿ہٰذَآ اِلٰہُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی﴾ (طٰہ: ۸۸) ’’یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود۔‘‘ تو آپ خاموش رہے اور اپنے بھائی سیّدنا موسیٰ علیہ السلامکا انتظار کیا اور جب آپ نے واپس آکر دیکھا کہ قوم سونے کے بچھڑے پر ٹوٹی پڑ رہی ہے تو اپنے بھائی کو سخت ملامت کی۔ جس کے جواب میں انھوں نے صرف اتنا کہا کہ: ﴿یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْتَرْقُبْ قَوْلِیْ o ﴾ (طٰہ: ۹۴) ’’اے میرے بھائی! میری داڑھی اور میرے سر کا بال نہ پکڑو۔ مجھے ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔‘‘ اس طرح سیّدنا ہارون علیہ السلامنے ابنائے قوم کے درمیان اختلاف و انتشار اور نصیحت مؤثر نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی و مزاحمت کا عذر پیش کیا۔ ****