کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 28
ہدایت پر نہ رہوں ۔‘‘ نفسانیت! علم کی ضد ، حق کے مخالف ، شرو فساد کا دلدلادہاور ضلالت و گمراہی کا سیدھا راستہ ہے۔ ﴿وَلاَ تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (ص: ۲۶) ’’خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔‘‘ ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآئَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ﴾ (المؤمنون: ۷۱) ’’اور اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب تباہ ہو جاتے۔‘‘ ﴿وَ اِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَہْوَآئِہِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾ (الانعام: ۱۱۹) ’’اور بے شک بہت سے لوگ بغیر علم کے محض اپنی خواہشات سے گمراہ کرتے ہیں ۔‘‘ نفسانیت کی متعدد قسمیں اور اس کی مختلف منزلیں ہیں ۔ بحیثیت مجموعی وہ محض خواہش نفس اور خود پسندی ہے۔ بہت سی غلطیاں اور گمراہیاں اس سے جنم لیتی ہیں ۔ اس کے جال میں انسان اسی وقت پھنستا ہے جب جادۂ حق سے انحراف اور راہِ ضلالت کی خوش نمائیاں اسے اتنی دل فریب لگنے لگیں کہ وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ اسلام میں نفسانیت کے داعیوں اور باطل فرقوں کا ردّ اس طرح ہو سکتا ہے کہ جس خوش نصیب کو اللہ نے اپنے انعام و اکرام سے علم و فہم کی دولت عطا فرمائی ہے وہ گمراہ شخص کو نفس پرستی کے عمیق دلدل میں پھنسنے سے پہلے اس کے مسلک و اعتقاد اور فکر و خیال کی وہ بنیاد ظاہر کر دے جو براہِ راست اس کی نفسانیت سے وابستہ ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں فانوس ایمان روشن کر دے اور وہ اپنے فکر و اعتقاد کی کج روی اور اس کا وہ کھوٹا پن اچھی طرح جان لے۔ جس کے ظاہری حسن و جمال کا کوئی حقیقی وجود نہیں بلکہ خود اسی کے ذہن کی پیدا کردہ