کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 26
اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ﴾ (ہود: ۱۱۸، ۱۱۹) ’’اور اگر تمہارا رب چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ وہ تو ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔ مگر جن پر تمہارا رب رحم فرمائے اور اسی لیے اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘ اس اُمت کے اسلاف میں جو اختلافات واقع ہوئے اور ہمیشہ ہوتے ہی رہیں گے۔ وہ انہیں مظاہر فطرت کے اجزاء ہیں ۔ یہ اختلافات اپنے حدود سے متجاوز نہ ہوں اور ان کے اُصول و آداب کا التزام کیا جائے تو یہ ایک بہت زیادہ مفید و نفع بخش مثبت چیز ہو گی۔ اختلافِ مقبول کے بعض فوائد: ہم ابھی بتلا چکے ہیں کہ حدود اختلاف کا خیال رکھا جائے اور اس کے آداب بھی سامنے رہیں تو اس کے بعض مثبت فوائد برآمد ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً: ۱۔ نیتیں صحیح ہوں تو ان سارے احتمالات کے جاننے کا موقع ملتا ہے جن میں کسی بھی رُخ سے دلیل دینا ممکن ہو۔ ۲۔ ایسے اختلافات سے ذہنی ریاضت اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور مختلف عقلیں جو مفروضات قائم کر سکتی ہیں ان پر غورو فکر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ ۳۔ متعدد حل سامنے آجاتے ہیں جن سے در پیش مسئلہ میں اس دین فطرت کے مناسب حل کی طرف رہنمائی ہو جاتی ہے۔ مذکورہ فوائد اسی صورت میں ممکن ہیں جب اختلاف اپنے ان آداب و حدود کے دائرے میں رہے جن کی رعایت ہر حال میں ضروری ہے ۔ اگر وہ اپنے حدود سے تجاوز کرے اور ان کے آداب کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہ جدال و شقاق میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے منفی اور بُرے نتائج سامنے آتے ہیں اور اُمت کے اندر ایک نیا انتشار اُٹھ کھڑا ہو جاتا ہے جس کے نتائج