کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 25
اس کا کچھ بھی ربط و تعلق نہ ہو۔ شقاق: متحاربین کے درمیان الفاظ کی جنگ اتنی شدید ہو جائے کہ اظہارِ حق و صواب کی بجائے ہر فریق ایک دوسرے پر محض غلبہ حاصل کرنا چاہے اور ان کے درمیان افہام و تفہیم یا اتفاق پیدا ہونا مشکل ہو جائے تو ایسی حالت کو شقاق کا نام دیا جاتا ہے۔ شقاق کی اصل یہ ہے کہ ہر فریق زمین کے کچھ نصف حصے یا اس کے گوشے میں ہو گویا وہ زمین ان دونوں کے لیے تنگ ہو رہی ہے کہ وہ ایک ساتھ اس میں نہیں رہ سکتے۔ قرآنِ حکیم میں ہے: ﴿وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا﴾ (النساء: ۳۵) ’’اور اگر تمہیں زوجین کے جھگڑے کا خوف ہو۔‘‘ یعنی سخت اختلاف جس کے بعد ایسا نزاع پیدا ہو جائے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف حصے میں ہیں ۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: ﴿فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ﴾ (البقرہ : ۱۳۷) ’’تو وہ ضدر اور جھگڑے میں ہیں ۔‘‘ اختلافِ مقبول و مردود: زبان، رنگ اور تصورات و افکار کے اختلاف کے ساتھ ہی متنوع انسانی عقل و حواس کی تخلیق بھی مشیت خدوندی ہے۔ جس سے لازمی طور پر کسی ایک مسئلہ میں بھی متعدد اقوال اور آراء و احکام سامنے آئیں گے۔ رنگ و زبان اور مظاہر تخلیق کے اختلافات جب خدا کی نشانیاں ہیں تو حواس و عقلیں بھی اپنے نتائج کے ساتھ ہی خدا ہی کی نشانیاں اور اس کے قدرتِ کاملہ کے دلائل ہیں ۔ اگر سارے انسان ہر چیز میں برابر ہوتے تو دنیا کی یہ آبادی و شادابی اور اس کی یہ زندگی کیسے رواں دواں رہتی اور جو چیز جیسے اور جس کے لیے پیدا کی گئی ہے وہ اسے حاصل بھی ہے: ﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ o