کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 232
تمہارے راجح قول کے مخالف ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اپنے شاگرد کے ساتھ نرمی کرو۔ لہٰذا اگر اس عالم کے لیے نکلنے کی کوئی راہ پاؤ تو یا تو اسے وہ راہ بتا دو، یا اسے مخالفین کے ساتھ بھی حسن ادب کی تربیت دو اور اس میں اس کی عادت پیدا کرو۔ علماء نے اسی سبب سے یہ فرمایا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ عالم لوگوں میں ایسی بات نہ بیان کرے جس سے فتنہ پیدا ہو۔ لہٰذا اسے اپنے علم کی باریکیوں اور اس کے شذو ذات میں سے جو اس کے آس پاس لوگوں کے عقل و شعور میں نہ آئے بحث سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (۷) بہترین کلام کے انتخاب اور جارحانہ کلمات اور عیب جوئی و طعنہ زنی اور احمقانہ و جاہلانہ تعریض کی زہریلی عبارتوں سے پرہیز اور اسلامی ادب کا التزام کرکے۔ اس کتاب میں اس معمولی اثاثے کے سلسلے میں اتنا ہی کہنا ممکن تھا اور اب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں اور آپ کو اس عمل کی توفیق دے جس سے محبت کرتا اور خوش ہوتا ہے اور درود و سلام نازل ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل اور صحابہ پر۔ آمین وَاٰخِرُ دَعْوَاھُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ