کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 231
یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہماری یہ گذارش غلطیوں سے ان کی سلامتی کی دعوت نہیں ہے، اس لیے کہ ہر شخص خطاء کار ہے اور معزز و شریف وہ ہے جو کسی انسان کی بہت سی درستگی میں سے تھوڑی سی لغزش کو معاف کردیتا ہے۔
اس سلسلے میں تمہارے لیے کافی ہے کہ خود کو بھی خطا کار سمجھو اور جب تم خود غلطی کرتے ہو اور اپنے لیے استغفار کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ جب تمہارا بھائی غلطی کر رہا ہو تو اس کے لیے استغفار نہ کرو، اور ویسے ہی کہو جیسے موسیٰ علیہ السلامنے اپنے بھائی ہارون علیہ السلامکے ساتھ کیا تھا: ’’رب اغفرلی ولأخی، وأدخلنا فی رحمتک وأنت أرحم الراحمین‘‘ کہ اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کردے اور تو ارحم الراحمین ہے۔
۴: خود کو الزام دے کر اور اپنے آپ کو بحث و نظر اور اختلاف کی جگہوں سے روک کر اور دوسرے کو گہری نظر اور طویل غور و فکر کے بغیر غلط قرار دینے سے پرہیز کرے۔
۵: اپنے بھائیوں کی تنقید یا ان کے خیالات کا کشادہ دلی کے ساتھ استقبال کرکے، اسے اپنے ناقد کی طرف سے اپنی مدد سمجھ کر اور یہ باور کرے اس کا مقصد تمہاری عیب جوئی یا تمہیں زک پہنچانا نہیں ہے۔
۶: فتنے اور شور و شغب کے مسائل سے پرہیز کرے۔
چنانچہ آجری نے اپنی کتاب ’’اخلاق العلماء‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ جب کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے اور اسے معلوم ہو کہ یہ شور و شغب کا مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے درمیان فتنے کا موجب ہو تو اس کو اس سے معذرت کردینی چاہیے اور سائل کو اس سے بہتر اور مفید کی طرف پھیر دینا چاہیے۔
اسی ضمن میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی عالم لوگوں سے، خصوصیت سے کمسن طلباء سے، ایسی بات نہ کرے جس سے فتنہ پیدا ہو اور اساتذہ اور علماء کو چاہیے کہ طلباء اور بالخصوص کمسن طلباء سے بلند ہوکر رہیں ۔ چنانچہ اگر تمہارا شاگرد تم سے کسی عالم کا قول بیان کرے جو تمہارے قول یا