کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 229
(الف)… کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ علمی کتابوں بالخصوص تقابلی فقہ کی کتابوں میں جو اختلاف مذکور ہیں وہ مذموم اختلاف ہیں جو فرقہ بندی، گروہ بندی اور پارٹی بازی کی دعوت دیتے ہیں ۔ یہ لوگ قرآنی آیات کے ان عموم سے استشہاد کرتے ہیں جو فرقہ بندی اور اختلاف دور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن یہ مسلک غلط اور کوتاہ نظری ہے۔ کیونکہ یہ بات پچھلے صفحات میں معلوم ہوچکی ہے کہ کچھ اختلاف جائز ہوتا ہے، لیکن ان لوگوں کے اس خیال کا انجام سلف امت صحابہ و تابعین اور ائمہ مہدیین اور ان کے متبعین کو ملعون کرتا ہے۔
(ب)…اور تفریطمیں مبالغہ کی ایک صورت میں اس جاہل مقلد میں پائی جاتی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال کو لیتا اور مانتا ہے اور انسانی اقوال کو کتاب و سنت پر مقدم رکھتا ہے اور یہیں سے تم دیکھتے ہو کہ وہ کچھ ایسی نصوص شرعیہ بھی پیش کرتا ہے جس سے اس کے قول کی تائید ہو اور وہ اپنے مخالف کو ان نصوص سے روگرداں قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ تأمل کے بعد انصاف سے کام لے تو یہ پائے گا کہ زیادہ تر اختلاف نص میں نہیں ، بلکہ نص کے معنی و مفہوم میں ہوا کرتا ہے اور جب صورت حال یہ ہے تو اختلاف لوگوں کی فہم میں ہوتا ہے اور اس میں اختلاف کی وسعت ہے۔
(ج)… ایسے ہی تفریط کے مواقف میں اہل مذاہب پر نکیر میں غلو بھی ہے جو کسی نکیر کرنے والے کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ متقدمین کی ایسی عبارتوں میں تفتیش و کرید کرنے لگتا ہے جس سے بعض ائمہ کی تنقیص سمجھی جاتیہے، اور یہ شخص ایسی ہی عبارتوں کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کرتا ہے اور انہیں پھیلاتا ہے اور بغض و عداوت کی تخم ریزی کرتا ہے۔
علمی لغزشوں اور فقہی شذوذ کو ڈھونڈنا، اور انہیں یکجا کرکے مجالس اور عوام میں پھیلانا کسی مخصوص مذہب پر ہی نہیں بلکہ پورے دین پر اعتماد میں بے یقینی پیدا کرتا ہے، اور یہ کام نہایت بدترین اور دشمنانہ ہے جس کے پیچھے کوئی عام و خاص مصلحت نہیں ۔
لغزشوں کو ڈھونڈنا اور غلطیوں کو تلاش کرنا بیمار دل اور بدنیت شخص کا کام ہے، اس لیے کہ یہ بات معلوم ہے کہ انبیاء کے سوا جو اللہ کے احکام پہنچانے میں معصوم ہیں اور کوئی انسان