کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 228
موقف کی ایسی صورتیں اور نقول و اقوال پاتا ہے جو منصف کے صاف ذہن کو مکدر کردیتے ہیں ، لہٰذا ان کے بارے میں نصیحت و تنبیہ کرنا ضروری ہے اور ہم انہیں دو پہلو سے دیکھ سکتے ہیں ایک افراط کا پہلو، دوسرا تفریط کا پہلو۔ افراط کے مواقف: اور یہ مندرجہ ذیل باتوں میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ (الف) معتبر مذاہب کے کچھ پیرؤں کا بدترین تعصب گویا کہ حق اسی مذہب میں محدود ہے اور بقیہ دیگر مذاہب باطل ہیں اور اسی سے باہم آویزش اور کینے پیدا ہوتے ہیں ۔ (ب) اس تعصب نے اپنے امام کے تفوق اور اس کے مذہب کی تائید کے لیے حدیث سازی پر آمادہ کیا اور دوسری طرف ایسی عبارتیں بھی بنائی گئیں جس سے دوسروں کے مسلک و مذہب اور ان کے علماء کی تنقیص ہو اور ظاہر ہے کہ یہ اندھی جہالت اور بدترین تعصب ہے جسے مسلمانوں کے عالم ائمہ کی طرف منسوب کرنا اور ائمہ مہدیین امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ م وأرضاھم پر چسپاں کرنا تو درکنار کوئی اپنے لیے بھی پسند نہیں کرسکتا۔[1] تفریط کے مواقف: تفریط کے مواقف بھی مندرجہ ذیل ہیں :
[1] یہاں ایک وضع کردہ حدیث بطور مثال نقل کردینا ہم مناسب سمجھتے ہیں ۔ موضوعات کی تمام تر کتابوں میں تقریباً منقول ہے: یکون فی أمتی رجل یقال لہ محمد بن أدریس أضر علی أمتی من إبلیس، ویکون فی أمتی رجل یقال لہ أبوحنیفہ ، ھو سراج أمتی۔ یعنی میری امت میں محمد بن ادریس (امام شافعی کا نام ہے) نامی ایک آدمی ہوگا جو میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ مضر ہوگا اور میری امت میں ابوحنیفہ نامی ایک آدمی ہوگا جو میری امت کا چراغ ہوگا۔ محدثین باجماع و اتفاق اس حدیث کے وضع کے قائل ہیں ۔ موضوعات کی کتابوں میں اس جیسی بے شمار من گھڑت روایتیں خلفاء راشدین، صحابہ و تابعین اور ائمہ مہدیین کے پہلو ائمہ ضلالت کی شان میں موجود ہیں ۔ اللہ قلب و نظر عطا کرے۔ (ابو القاسم)