کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 226
سے اسامہ بن زید سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے قاسم بن محمد سے سری نماز میں قراء ۃخلف الإمام کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ اگر پڑھو تو تمہارے لیے اصحاب رسول میں سے کچھ لوگوں میں اسوہ ہے اور نہ پڑھو تو بھی اصحاب رسول میں سے کچھ لوگوں میں تمہارے لیے اسوہ ہے۔[1] (۵) اور حسن بن حلوانی[2] نے فرمایا کہ مجھ سے عبد اللہ بن صالح نے لیث بن سعد سے یحییٰ بن سعید کا قول نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ اہل فتویٰ برابر فتویٰ دیتے آئے ہیں تو کوئی ناجائز قرار دیتا ہے اور کوئی جائز اور جو ناجائز قرار دیتا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جس نے جائز قرار دیا ہے وہ جائز قرار دینے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا اور جو جائز قرار دیتا ہے یہ نہیں سوچتا ہے کہ ناجائز قرار دینے والا ناجائز قرار دینے کے سبب ہلاک ہوگیا۔ اور اگر تم اس سے سخت مسلک چاہو تو سنو! [3] امام ابن عبد البر کہتے ہیں کہ اسمٰعیل بن اسحاق القاضی نے کتاب ’’المبسوط‘‘ میں ابوثابت سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابن القاسم کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام مالک اور امام اللیث بن سعد کو اختلاف صحابہ کے بارے میں کہتے ہوئے سنا، وہ دونوں فرما رہے تھے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں وسعت ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ، بلکہ وہ خطا و صواب ہے۔[4]
[1] قاسم بن محمد کا یہ قول ضعیف سند سے مروی ہے اس کے راوی اسامہ بن زید ضعیف ہیں اور عبد العزیز بن محمد الدراوردی اگرچہ ثقہ ہیں مگر غیروں کی کتاب سے حدیث بیان کرتے وقت غلطی کرتے ہیں (تقریب التہذیب و خلاصہ) نیز یہ کہ قاسم بن محمد سے قراء ۃ خلف الامام کی نفی نہیں بلکہ ثبوت ہے۔ مزید یہ کہ بعض اصحاب رسول قراء ۃ خلف الامام کی نفی بھی محل نظر ہے کیونکہ اس سلسلہ کے جملہ اقوال و آثار ضعیف سندوں سے مروی ہیں ۔ [2] کتاب میں ’’حسین بن علی حلوانی‘‘ طبع ہوا ہے، درست ’’حسن‘‘ ہے۔ [3] یہی دوسرا مذہب ہے جس کی طرف گذشتہ حاشیہ میں اشارہ ہوچکا ہے۔ [4] اسمٰعیل بن اسحاق القاضی کی کتاب المبسوط سے نقل کردہ بات ابن عبد البر نے ’’جامع بیان العلم‘‘ (۲/۸۲) میں نقل کی ہے۔ نیز لیث بن سعد اور امام مالک کا قول اپنی سند میں اصبنع سے ابن القاسم سے نقل کیا ہے۔ (۲/۸۲)