کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 225
راہ نہیں ہوا مگر اسے جدال دے دیا گیا۔ اس کا ذکر آجری نے اپنی کتاب ’’اخلاق العلماء‘‘ میں کیا ے۔ اور بہت سے علماء سے منقول ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں کوئی حدیث یا اجماع نہ ہو اور اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو اس میں اجتہاد کرکے عمل کرنے یا تقلید کرنے پر نکیر نہیں کی جائے گی۔ اور اس سلسلے میں علماء کے یہ چند اقوال ہیں : (۱) سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ جب تم کسی کو ایسا عمل کرتے دیکھو جو مختلف فیہ ہو اور تمہاری رائے اس کے علاوہ ہو تو اسے مت روکو۔ اور انہیں کا ایک قول خطیب بغدادی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: جس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہو میں اپنے بھائیوں کو اسے قبول کرنے سے نہیں روکتا۔ (۲) ابن مفلح رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الآداب الشرعیۃ‘‘ میں امام احمد سے ’’جن فروعیات میں اختلاف جائز ہو اس میں کسی کے اجتہاد پر نکیر نہیں ‘‘ کے عنوان کے تحت نقل کرتے ہیں کہ: اور مروزی کی روایت میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: کسی فقیہ کے لیے زیبا نہیں کہ لوگوں کو کسی ایک مذہب کے خلاف للکارے اور ان پر تشدد کرے۔ (۳) امام نووی رحمہ اللہ مسلم شریف کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’مفتی اور قاضی کو اپنے مخالف پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے جب تک اس نے کسی نص یا اجماع یا قیاس جلی کی مخالفت نہ کی ہو۔ (۴) ابن عبد البر رحمہ اللہ نے جامع بیان العلم و فضلہ[1] میں اپنی سند سے عبد العزیز بن محمد
[1] علامہ ابن عبد البر نے ’’جامع بیان العلم‘‘ (۲/۸۰) میں ’’ما یلزم الناظر فی اختلاف العلماء‘‘ کے باب میں ذیل کے دونوں قول قاسم بن محمد اور یحییٰ بن سعید سے نقل کئے ہیں اور اختلاف علماء کے بلکہ اختلاف صحابہ کی صورت میں بھی دو مذہب نقل کئے ہیں ۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ اختلاف صحابہ کو من و عن تسلیم کرلیا جائے اور اس میں کسی فکر و نظر کی حاجت محسوس نہ کی جائے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ اختلاف صحابہ کی بھی قرآن و سنت کی روشنی میں جانچ کی جائے اور اس کے خطا و صواب کا دارومدار قرآن و حدیث کو بنایا جائے۔ پہلے مذہب کا دارومدار حدیث ’’اصحابی کا نجوم بائہم اقتدیتم‘‘ ہے۔ امام ابن عبد البر نے اس مذہب اور اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس ضعیف مذہب کے ضمن میں مندرجہ ذیل دونوں قول نقل کئے ہیں ۔ (دیکھو جامع بیان العلم و فضلہ ۲/۷۸۔ ۸۵، ۹۰۔۹۱)