کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 223
کسی نے یہ فتویٰ دے دیا کہ حانث نہیں ہوگا تو؟ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ تم (مقام رصافہ میں ) مدنیوں کی مجلس جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ اگر انہوں نے مجھے فتویٰ دے دیا تو جائز ہوجائے گا؟ فرمایا کہ ہاں !
اور جیسا کہ ابن قدامہ فرماتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک مفتی کے لیے جائز ہے کہ اپنے مسلک کے مخالف کی طرف بھی رہنمائی کردے۔ گویا ان کا خیال یہ ہے کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں اور مفتی کے پاس زیادہ سے زیادہ اپنی ایک رائے ہے لہٰذا وہ اگر منصف ہو تو دوسرے کی طرف رہنمائی کرکے اپنی رائے کو الزام دیتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے مخالف کے ہاں اس سے بہتر یا مناسب رائے ہو۔
’’العواصم من القواصم‘‘ کے مؤلف ابوبکر ابن العربی، بغداد کے شافعیہ کے امام ابوبکر محمد بن احمد بن حسین شاشی کے بارے میں جو اپنے زہد و تقویٰ کے سبب جنید کہے جاتے تھے، بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کو ایک مجلس مناظرہ میں امام ابوحنیفہ کے مذہب کی حمایت کرتے سنا وہ فرما رہے تھے کہ لغت میں ’’لا تقرب کذا‘‘ (راء کے فتحہ کے ساتھ) بولا جائے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس کام میں ملوث نہ ہو اور راء کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک نہ جاؤ۔
میں (ابن العربی) نے کہا کہ یہ صحت علم اور وسعت افق کی دلیل ہے، کیونکہ عالم مذہبی تعصب سے بلند ہوئے بغیر اور سچائی اور خیر جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف مائل ہوئے بغیر پختہ نہیں ہوسکتا اور جس کا مقصد حق ہوتا ہے وہ اسے تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے دلیلیں پیش کرتا ہے اور بہر صورت وہ حق کے ساتھ رہتا ہے۔ رہا مسلک و مذہب اور کسی خاص طریقہ کے اصول و قواعد کے لیے تعصب اور اس کے لیے واہیات دلیلیں پیش کرنا تو یہ طبیعت کی رذالت، علم کے فساد اور باطل سے انسیت کی دلیل ہے۔
اور یہیں سے جیسا کہ ابن العربی نے محمد بن حسین شاشی کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں نظر اور وسعت افق اور تعصب سے دوری کی کیفیت کا ذکر کیا ہے، ابن العربی کہتے