کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 206
یہ تھی صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جو بر گزیدہ تھے ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے پسند کیا تھا۔ ٭ مانعین زکوٰۃ سے قتال کے سلسلے میں ان کا اختلاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت خلافت کے بعد کچھ نئے مسلم قبائل اسلام سے پھر گئے ، اور کچھ قبائل جھوٹے مدعیانِ نبوت جیسے مسیلمہ کذاب وغیرہ کے پیرو ہو گئے ، نیز کچھ قبائل زکوٰۃ ادا کرنے سے رُک گئے۔ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ ان سے قتال کا عزم کر لیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ان سے قتال کیسے کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ ’’مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا یہاں تک کہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ لہٰذا جو اس کا قائل ہو گیا اس نے مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کر لیا مگر اس کے حق کے ساتھ، اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سننے کے بعد بھی فرمایا کہ ’’واللہ ! میں اس شخص سے لڑوں گا جو نمازاور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کرے گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ، واللہ ! اگر وہ مجھ سے ایک رسی بھی روکیں گے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اسے روکنے پر ان سے لڑوں گا۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا یہ عزم دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی رائے مان لی ، اور آپ کی رائے پر صحابہ کا اتفاق ہو گیا اور سلام کا وقار بڑھ گیا۔بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے اور آپ کا عمل ضرب المثل بن گیا جس سے بحران اور مصیبتوں میں استشہاد کرتے ہوئے کہا جانے لگا: ردّۃ ولا ابا بکر لہا ۔ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فقہ دونوں نے مرتد اسیروں کے بارے میں اختلاف کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے برعکس حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی رائے اہل ارتداد کی عورتوں کو قیدی بنانے کی تھی ، جب کہ حضرت